سکالر شپ فاؤنڈیشن آج تحریک، کل تاریخ ہوگی

جہالت کی تاریکیوں کو دور بھگانے والوں میں سکالرشپ فاؤنڈیشن کے ارباب نظر ملت پاکستانیہ کے محسن ہیں۔ محسن دوسروں کے لیے زندہ رہتا ہے
شہید دوسروں کے لیے جان دے دیتا ہے میں بے پناہ ممنون احسان ہوں اپنے ہر دل عزیز دوست ہم دم و دم ساز اور محسن کا جن کی دعوت پر اج خوبصورت لوگوں کو دیکھنے کا موقع ملا
ان کی خوبصورتی ان کے عمل سے ظاہر تھی وہ ہمارے مستقبل کی معماروں کے لیے وہ کام کر رہے ہیں جو آج تک کسی نے نہیں کیا ۔
سکالر شپ فاؤنڈیشن کے میر کارواں فضیلت ماب سہیل بشیر کی فکری رعنائیوں کے چراغ روشن ہیں ۔
محترم نوید افراز چیف ایگزیکٹو مستقبل کی معماروں کے لیے نوید اور عید کی حیثیت رکھتے ہیں
توقیر احمد شریفی کو غروب افتاب کی کرنوں نے ہمیشہ خیر اور بھلائی کے کاموں میں مصروف پایا ہے ۔
جناب اخترالدین کی سکالر شپ فاؤنڈیشن سے وابستگی بھی متاع گراں بہا ہے
جناب برگیڈیر شوکت اسلم جہالت کے اندھیروں کو اپنے عزم بالجزم اور یقین کے سورج سے دور بھگانے میں مصروف عمل ہیں کرنل قمر بشیر ایک پرخلوص انسان ہیں
ان کی نگاہ ذہانت و فطانت کے پیکروں کو تلاش کرتی ہے جو مالی وسائل سے محروم ہیں ہدیل فاطمہ ۔ مہوش فواد۔ نازش افراز ۔ ہنا مقصود کی منزل مقصود بھی یہی ہے کہ
وہ پاکستان کے افق پر علم و ہنر کا سورج طلوع ہوتا ہوا دیکھیں
عربی میں افتاب مونث ہے اور ماہتاب مذکر ہے اس لیے تذکیر و تانیث کو کوئی امتیاز حاصل نہیں ہے سوائے اس کے کہ اس کا کام بولتا ہے
اس وقت سکالرشپ فاؤنڈیشن کی اس نصف کائنات نے سماج کا توازن قائم رکھا ہوا ہے ۔
مقصود احمد۔ سکندر حمید خان ان عبقری لوگوں کا شمار مشتہرین میں نہیں مشاہیر میں ہوتا ہے ۔
مشتہرین عید کے چاند کی طرح طلوع ہو کر دیوالی کے دیپ کی طرح بجھتے دیکھے ھیں
لیکن مشاہیر کا کام اور ان کا نام تا ابد مؤرخ اپنے قلم کے لیے باعث افتخار سمجھتا ہے

ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن

اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے

سکالرشپ فاؤنڈیشن کی اس پرشکوہ تقریب میں ۔ میں نے مل والوں کو نہیں دل والوں کو دیکھا
اور حقیقت یہ ہے کہ نواز کھرل جیسے جذبہ فکر و نظر سے مزین عظیم دوست تشریف فرما تھے
اور حلقہ ء ارباب ذوق کی ایک مخصوص میز گول میز کانفرنس کا نقشہ پیش کر رہی تھی
استاد شاعر ہمارے قلم قبیلے کے سردار جناب غلام حسین ساجد کی موجودگی
ماحول میں اسودگی پیدا کر رہی تھی ۔ غافر شہزاد اور تاثیر نقوی بدستور اپنی گویائی پر خامشی کو ترجیح دے رہے تھے ۔

آگاہی بولنے نہیں دیتی

لوگ زور بیاں مانگتے ہیں

سکالر فاؤنڈیشن کے ارباب نظر کے یہ فیصلے تصفیے جوش کے عالم میں نہیں تھے اور نہ ہی وہ دوسروں کی تقلید میں کوئی نیا تجربہ کر رہے تھے
یہ حقیقت ہے کہ اس وقت ہمیں ان رہنماؤں کی ضرورت ہے جو انے والے انتخابات کے بارے میں نہیں سوچتے بلکہ انے والی نسلوں کی اصلوں کی فصلوں کو شاداب کر رہے ہیں
بقول بہادر یار جنگ مرحوم کے کہ اج ہمیں ان لوگوں کی ضرورت نہیں جو شجر ملت میں پھول بن کر چمکنا چاہتے ہوں اور پھل بن کر کام و دہن کو شیریں کرنا چاہتے ہوں
ہمیں ان کی ضرورت ہے جو کھاد بن کر زمین میں جذب ہوتے ہیں اور جڑوں کو مضبوط کرتے ہیں
جو مٹی اور پانی میں مل کر رنگین پھول پیدا کرتے ہیں جو خود فنا ہوتے ہیں اور پھلوں میں لذت و شیرینی پیدا کرتے ہیں
ہم کو ان کی ضرورت نہیں جو کاخ و ایوان کے نقش و نگار بن کر نگاہ نظارہ باز کو خیرہ کرنا چاہتے ہوں ہم ان بنیاد کے پتھروں کو چاہتے ہیں
جو ہمیشہ کے لیے زمین میں دفن ہو کر اور مٹی کے نیچے دب کر اپنے اوپر عمارت کی مضبوطی کی ضمانت قبول کرتے ہیں ۔
سکالرشپ فاؤنڈیشن کے تعلیمی سائنس دانوں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ کہنے کے نہیں کرنے کے لوگ ہیں کرنے کے درخت میں خوشبو ہوتی ہے کہنے والے کہتے رہتے ہیں اور یہ کرنے والے کر گزرتے ہیں۔
اکبر الہ ابادی نے کہا تھا کہ

ہماری باتیں ہی باتیں تھیں سید کام کرتا تھا
سکالرشپ فاؤنڈیشن کے ارباب فکر و نظر کی بات فضا میں پھیل چکی ہے بقول پروین شاکر کے

فضا میں پھیل چلی میری بات کی خوشبو
ابھی ہواؤں سے تو میں نے کچھ کہا ہی نہیں

جہاد یہ ہے کہ جہالت کی تاریکیوں کو علم و ہنر کی روشنی سے دور بھگا کر دم لیں اور دنیا جان لے کہ تعلیمی اور فنی علوم کے جدید عہد میں کتنی ضرورت ہے ۔
توقیر احمد شریفی صاحب کو ہم نے ہمیشہ کڑے وقت سے لڑتے دیکھا ہے اور یہ شعر سکالرشپ فاؤنڈیشن کے قافلہ ء نو بہار پر صادق اتا ہے ۔

ہم کڑے وقت سے لڑنے کا ہنر جانتے ہیں

کیسے کٹتا ہے اندھیرے کا سفر جانتے ہیں

اپ نے ان گھرانوں کے بچوں کو اعتماد کی دولت سے مالا مال کر دیا ہے بچیوں اور
بچوں کو ہم نے بولتے دیکھا اور ان کی انکھوں کی چمک میں خود اعتمادی کی قندیلیں فروزاں تھی ۔
تعلم کتابوں اور کلاس روم سے کہیں بڑھ کر ہے تعلیم صلاحیتوں کو جلا بخشتی ہے
خوابوں کو تعبیر دیتی ہے اور زندگی کا رخ بدل کر رکھ دیتی ہے مگر
پاکستان میں حقیقی صحیح طالبہ کو ایک سفاک حقیقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے
اور وہ ہے مادی وسائل کی کمی
جس کی وجہ سے کتنے نوجوانوں کے خواب ٹوٹ جاتے ہیں
لیکن اس تاریکی میں بھی امید کی ایک کرن باقی ہے 66 امید کا یہ سورج 1966 سے
یونیورسٹی آف اینجنیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے انگن سے طلوع ہوا جہاں کچھ ایسے دوست
جن کی دوستی نے ایک خواب کو جنم دیا
جس نے انسٹی ٹیوشن اور اکثر دوست اپنے اپنے اداروں میں منتہا تک پہنچے کہ جو احساس کا علم بلند کر کے لوگوں کے دکھوں کو سکھوں میں تبدیل کرنے کا عزم لیے ہوئے ہیں
ان دوستوں نے 2013 میں فیصلہ کیا کہ ہم پڑھے لکھے کے نہیں یونیورسٹی آف انجینیرنگ ٹیکنالوجی
میں ہمیں نسل نو کو زیور تعلیم سے اراستہ کریں گے اور اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب رہے ہیں
اس وقت پورے پاکستان میں وہ بچے جو وسائل نہیں رکھتے تھے وہ بہت جلد اب وسائل خود
فراہم کرنے کی پوزیشن میں بھی ا رہے ہیں
میری اپنے اس کالم کے ذریعے اہل خیر سے اپیل ہے کہ وہ سکالرشپ فاؤنڈیشن کے ارباب فکر و نظر کے
نہ صرف ہاتھ مضبوط کریں بلکہ ان کے پاؤں بھی مضبوط کریں
کیونکہ پاؤں کی مضبوطی کا تعلق ثبات قلب سے ہے یہ وہ لوگ ہیں جو حقیقی معنوں میں
پاکستانی عوام کو پاکستانی قوم میں بدل رہے ہیں اور یہ بہت بڑی تبدیلی ہے
اور یہ تبدیلی تعلیم کے ذریعے آئے گی ۔ میں مکرر ممنون احسان ہوں جناب توقیراحمد شریفی صاحب کا جنہوں نے مجھے اس عشائیہ تقریب میں دعوت دی اور
میں وہاں تھوڑی دیر کے لیے سارے مناظر اپنی انکھ کی ڈبیا میں محفوظ کر کے لے آیا اور
قرطاس پر جذبات الفاظ میں لکھے جا رہے ہیں ۔
میں ممنون احسان ہوں محترمہ فردوس نثار کا جنہوں نے اپنی گوناگوں مصروفیات میں سے وقت نکالا
اور وہ توقیر احمد شریفی صاحب کی دعوت پر تشریف لائیں اور میرے لیے بھی اپ نے سہولت پیدا کی ۔
سکالرشپ فاؤنڈیشن کے ارباب نظر میرے نزدیک خوش نظری اور احترام کے سزا وار ہیں ۔
وہ قول کہ نہیں عمل کے ادمی ہیں شیکسپئر نے کہا تھا کہ نام میں کیا رکھا ہے گلاب کو جس نام سے پکاریں اس کی لطافت اور رنگینی میں فرق نہیں آتا
دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ تفصیل پر اختصار کو ترجیح دی جائے ۔تفصیل اکثر صبر آزما ہوتی ہے ۔

وسعت دل ہے بہت وسعت صحرا کم ہے

اس لیے مجھ کو تڑپنے کی تمنا کم ہے

منشا قاضی
حسب منشا

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-5-1-scaled.jpg

articlecolumnsdailyelectionsgooglenewspakistantodayupdates
Comments (0)
Add Comment