کہتے ہیں ایک بوڑھا آدمی کانچ کے برتنوں کا بڑا سا ٹوکرا سر پر اٹھائے شہر بیچنے کے لئے جارہا تھا۔
راستے میں چلتے چلتے اسے ہلکی سی ٹھوکر لگی تو ایک کانچ کا ایک گلاس ٹوکرے سے پھسل کر نیچے گر پڑا
اور ٹوٹ کر بکھر گیا۔
مگر وہ بوڑھا آ دمی اپنی اسی رفتار سے چلتا رہا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو اور نہ مڑ کر دیکھا کہ کیا ہوا ہے ۔ پیچھے چلنے والے ایک اور راہگیر نے دیکھا تو بھاگ کر بوڑھے کے پاس پہنچا اور کہا
” بابا جی! آپ کو شاید پتہ نہیں چلا، پیچھےآپ کا ایک برتن ٹوکرے سے گر کر ٹوٹ گیا ہے “
بوڑھا اپنی رفتار کم کیے بغیر بولا “بیٹا مجھے معلوم ہے اور مجھے محسوس بھی ہو چکا ہے
اور مجھے راہگیر حیران ہو کر بولا
بابا جی آپ کو معلوم ہے تو آپ رکے کیوں نہیں ذرا رک کر دیکھتے تو سہی کہ
آپ کا کیا اور کتنا نقصان ہو چکا ہے۔
“اپنے نقصان اور غلطی کا اندازہ بھی بہت اچھی طرح ہو چکا ہے
بوڑھا مسکرا کر بولا ” بیٹا جو چیز گر کر ٹوٹ گئی اس کے لیے اب رکنا بےکار ہے
بالفرض میں اگر میں رک جاتا تو ٹوکرا زمین پر رکھتا، اس ٹوٹی چیز کو جو اب جڑ نہیں سکتی کو اٹھا کر دیکھتا، افسوس کرتا اور سوائے پچھتاوے کے کچھ حاصل نہ تھا ، پھر ٹوکرا اٹھا کر سر پر رکھتا تو
میں اپنا وقت بھی ضائع کرتا اور ٹوکرا رکھنے اور اٹھانے میں کوئی اور نقصان بھی ہو جاتا
شہر میں جو کاروبار کرنا تھا افسوس اور تاسف کے باعث وہ بھی خراب کرتا ۔بیٹا،
میں نے ٹوٹے گلاس کو وہیں چھوڑ کر اپنا بہت کچھ بچا لیا ہے۔
وہاں رکنے اور دیکھنے سے مجھے کچھ بھی حاصل نہیں ہوناتھا سوائے دکھ کے اور دکھ پچھتاوا پیدا کرتا ہے
ہاں اگر کوئی ایسا نقصان مجھ سے ہوتا جس پر میں ندامت یا اپنی غلطی محسوس کرتا تو ضرور رکتا
اور اپنے اللہ سے معافی مانگتا اللہ کا شکرکرتا کہ اس برتن کےگرنے اور ٹوٹنے میں میرا کوئی قصور یا غلطی نہیں ہے
شکر ہے کہ پورا ٹوکرا نہیں گرا اور یہ سب بھی تو اتفاقا” ہو گیا ہے اللہ نقصان پورا کرے گا ۔
اس بوڑھے بزرگ کی بات اور سوچ بالکل درست تھی کیونکہ ہم اگر ذرا سا اس بات پر غور کریں
تو احساس ہوتا ہے کہ اللہ کا کوئی بندہ ایسا نہیں ہے جو نقصان سے بچا ہو ۔
جس کے دل ودماغ دنیا کی ہمہ ہمی ،چمک دمک ،اور رنگ رلیوں سےمتاثر نہ ہو گناہ قصور اور غلطی
تو انسانی صفت ہوتی ہے۔دانستہ اور نادانستہ سرزد ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں
البتہ کچھ ایسا نہ ہو کہ ہمیں اس پر ندامت اور شرمندگی محسوس ہونےگے”
ہماری زندگی میں کچھ پریشانیاں، غلط فہمیاں، نقصان اور مصیبتیں بالکل اسی ٹوٹے گلاس کی طرح
اتفاقاً” ہوتی ہیں جو ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہیں کہ
جن کو ہمیں بھول جانا چاہیےاور چھوڑ کر آگے بڑھ جانا چاہیے۔
کیوں کہ یہ وہ بوجھ ہوتے ہیں جو آپ کی رفتار کم کر دیتے ہیں اپکی کامیابی روک لیتے ہیں
آپ کی مشقت بڑھا دیتے ہیں آپ کے لیے نئی مصیبتیں اور پریشانیاں گھیر لا تے ہیں ۔
اور ہماری مسکراہٹ چھین لیتے ہیں، جینے کی چاہت ختم کر ڈالتے ہیں ۔
ہماری انسانی زندگی میں بے شمار المیے نقصان ،صدمے ،ناکامیاں ،آتے رہتے ہیں اور ہمیں پچھتاوے،ندامت ،شرمندگی ،سے دوچار کرتے ہیں
اور پچھتاوا آپ کی زندگی کے ایک مایوس کن واقعے پر ایک بہت ہی حقیقی رد عمل ہوتا ہے
جو منٹوں ،گھنٹوں ،دنوں ،سالوں اور بعض اوقات پوری زندگی جاری رہ سکتا ہے
جبکہ ندامت سے نمٹنا اس سے بھی زیادہ مشکل کام ہوتا ہے اور پچھتاوے ساتھ ساتھ غم لاچاری
اور بے بسی اس میں اضافے کا باعث بنتے ہیں
جو رفتہ رفتہ زندگی بھر کا روگ بن کر ہمیں اندر اندر سے کھوکھلا کردیتے ہیں اور ہماری روزمرہ زندگی اور جسمانی کارکردگی کو بھی بے حد متاثر کرتے ہیں ۔
کیونکہ انسان کے لیے ندامت اور پچھتاوا اپنے آپ کو سزا دینے کے مترادف ہوتا ہے ۔
ندامت سے نجات کے لیے اپنی غلطی قبول کرنا ،تسلیم کرنا اور اپنے آپ کو معاف کرنا ہوتا ہے
پھر خدا سے رجوع کرنا ہے
جو جلد انسان کو ندامت اور اس پر پچھتاوے کے ان مضبوط منفی جذبات سے نجات دلانے میں مددگار ہوتا ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا “جیسے جیسے ہم اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں
سکون قلب کی طرف بڑھتے چلے جاتے ہیں اور مثبت احساس اجاگر ہونے لگتا ہے ۔مسائل کہاں نہیں ہیں ؟
یہ زندگی کا حصہ ہیں ناکامیاں ،محرومیاں ،غلطیاں ،ان ہی کی وجہ سے ہی یہ زندگی ہے ہمارے بزرگ کہتے تھے کہ جب تک انسان ہے
تب تک اس کے کام ہیں جیسے ہی انسان ختم ہوتا ہے ویسے ہی اس کے کام ختم ہو جاتے ہیں
ندامت اور پچھتاوا کے واحد حل اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کے احساس اس کا شکر اور دل سے توبہ ہی ہے
بے شک اللہ کو ندامت کا آنسو شہید کے خون کی مانند لگتا ہے ۔
اس لیے اپنی پریشانیوں، مصیبتوں اور نقصانات کو بھولنا سیکھیں اور آگے بڑھ جائیں
گلے شکوے زندگی کا سکوں ختم کر دیتے ہیں جو گزر گیا اسے بھول جائیں
جس نے دکھ دیا اسے معاف کر دیں اور جس کو معاف نہیں کر پا رہے اس کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں یقین مانیں آپ پر سکوں ہو جائیں گے
بے شک اللہ بہترین کار ساز ہے محترمہ قدسیہ بانو کہتی ہیں
زندگی میں انسان کو ایک عادت ضرور سیکھ لینی چاہیے جو چیز ہاتھ سے نکل گئی ہے
اُسے بھول جانے کی عادت یہ عادت انسان کو بہت سی تکلیفوں سے بچاتی ہے
اس لیے زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ دنیا کو ایک نو وارد کی طرح دیکھیں ،ہر دن کو صرف گزاریں نہیں بلکہ جئیں تاکہ آپ کے تمام رشتے زندہ ہوتے ہوے آپ سے محبت ،تسکین اور
اطمینان کے خزانے سمیٹ سکیں زندگی کی خوبصورتی رشتوں سے ہے
اور رشتے تب ہی قائم رہتے ہیں جب ہم معاف کرنا اور درگزر کرنا سیکھ جاتے ہیں
کبھی کبھار اچھے لوگوں سے سے بھی غلطیاں ہو جاتی ہیں اس مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ برے ہیں
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بھی انسان ہیں
آپ نے معاف اسے کرنا ہے جسے آپ معاف کرنا نہیں چاہتے حضرت علی کرم اللہ فرماتے ہیں دو اعمال ایسے ہین جنکا ثواب کبھی تولہ نہیں جا سکتا “معاف کرنا اور انصاف کرنا ” ۔
دنیا کے مسلےبھی کوئی مسلے ہیں کہ انسان پھر سے کھاتا پیتا بھی ہے ہنستا بولتا بھی ہے مسٗلہ تو وہ ہے
جس کا سامنا ہماری روح جسم کے قبر میں جانے کے بعد کرتی ہے
لیکن وہاں بھی قرآن پاک بار بار کہتا ہے ” نااُمید نہ ہو ،کمزور نہ پڑو ،غمگین نہ ہو ،بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔اچھی امید کا دامن تھامے رہو کیونکہ اللہ انسان سے ماں سے بھی ستر گنا زیادہ محبت کرتا ہے
اور معاف کردینا اس کی بڑی صفت ہےاللہ کی ذات تو ایک آنسو سے عمر بھر کے گناہ
معاف کر کے راضی ہو جاتی ہے ۔دنیا میں لوگوں سےدرگزر کرتے رہو کیونکہ درگزر کرنا
رب کریم کو بہت پسند ہے اور اس کی رحمت کے حصول کا ذریعہ بھی ہے
حضرت واصفؒ نے تو یہاں تک کہا ہے” لوگوں کو معاف کرکے بےشک بےوقوف بن جاو لیکن یہ سب سے بڑی دانائی ہے” ہمارے پیارے رسول ؐ نے تو کہا ہے
” اگر معاف کرنے سے تمہاری عزت میں کمی آے توقیامت کے دن مجھ سے لے لینا ” سبحان اللہ !
بےشک معاف کرنے سے عزت بڑھتی ہے اور معاف کرنا بھول جانے کا بہترین طریقہ ہے
لہذا بھولنا سیکھیں لوگوں کو معاف کریں اور خوشحال ، پرسکون اور چین سے زندگی گزاریں ۔
۔آج یقینا” ہمیں ہماری قوم اور ہمارے بگڑتے ہوے معاشرے کو اپنی ترقی کا عمل جاری رکھنے کے لیے انفرادی اور اجتما عی طور اس خوبی کو اپنانے اور عمل کرنے کی کی اشد ضرورت ہے اور
شاید یہی ہماری کامیابی کا راز ہے ۔ہماری انسانی زندگی کے ساتھ ساتھ آج ہمارے ملک کی
سیاسی اور معاشی حالت قابل غور ہےملک کی بقا اور سلامتی سیاسی و معاشی استحکام سے جڑی نظر آتی ہے
ایسے حالات میں ماضی کے تلخ حصار سے باہر نکلنا ہو گا اور ایک روشن اور تابناک مستقبل
کی جانب بڑھنا ہوگا جو صرف اور صرف قومی یکجہاتی اور باہمی اتحاد سے ہی ممکن ہے ۔
اب سوچنا یہ ہے کہ کیا ہم نے ماضی کے نقصانات کا ماتم کرنا ہے یا پھر اپنے مستقبل کی
تعمیر کی جانب بڑھنا ہے ؟بھولنے اور بھلانے کی روایت ہماری سیاست کو ایک نئے راستے پر لا سکتی ہے
مگر اس کے لیے پوری قوم کے ساتھ ساتھ سب سے پہلے تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کو
اس جانب قدم بڑھانا پڑے گا ۔
اندازبیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جاے ترے دل میں مری بات
احساس کے انداز
تحریر ؛۔ جاویدایاز خان
۔https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-25-1-scaled.jpg
۔04/03/24
۔