امرتسر سے لائلپور چیمبر آف کامرس تک،اصغر مخدومی کی خدمات

پچھلے دنوں لائلپور پکچر گیلری فیصل آباد میں قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ کام کرنے والے
تحریک پاکستان کے سرگرم رکن اصغر مخدومی صاحب کی ترانوے ویں سالگرہ کیک کاٹ کرمنائی گئی
جس کا اہتمام لائلپور پکچر گیلری کے کسٹوڈین میاں بشیر احمد اعجازاور چند دوستوں نے کیا تھا
راقم الحروف کے علاوہ شہر کی معتبر شخصیات نے مخدومی صاحب کی خدمات کے اعتراف میں
اس تقریب میں شرکت کی
نامورمحقق، ادیب،شاعرڈاکٹر ریاض مجید،ڈائریکٹر انفارمیشن خورشید جیلانی،
ڈائریکٹر آرٹس کونسل فیصل آباد محمد ابرار اور ڈاکٹرخواجہ حامد پروفیسر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی نے بھی بطور مہمانان اعزاز شرکت کی
پاکستان اور لائلپور کی تعمیر اورترقی میں اہم کردار ادا کرنے والی شخصیت کی
اہم خدمات کو یاد کرنا مقصد ہے، جنہوں نے قائد اعظم کے ساتھ مل کر مستقبل کی بنیادیں رکھیں،
بطور طالب علم 1942 میں قائد اعظم کو امرتسر میں خوش آمدید کہا تھا،
اور تحریک پاکستان کے لئے قائد اعظم کا ساتھ دیا
قائد سے انکی محبت، وفاداری اور عزم نے انہیں آگے بڑھنے میں روشنی فراہم کی،
اس مناسبت پر ہمیں اصغر مخدومی صاحب کی قابلیتوں، انقلابی سوچ اور خدمات کو یاد کرنا ہے
ان کی خدمات ہمیشہ ہمارے دلوں میں ذندہ رہیں گی، جو انہوں نے تحریک پاکستان سے لے کر
استحکام پاکستان تک سر انجام دیں
اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مخدومی صاحب سے تفصیلی بات چیت ہوئی
انہوں نے بتایا کہ تقسیم پاکستان کے وقت چودہ اگست 1947 کوجو ٹرین امرتسر سے لاہور جارہی تھی
اس پر تقریبا 2500 افراد سوار تھے،ٹرین پر راستے میں حملے ہوئے،اور لاہور پہنچتے پہنچتے
ٹرین پر سوار تمام افراد کو مار دیا گیا
سکھوں نے ظلم و بر بریت کی ایسی مثال قائم کی جس نے چنگیز خان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا
اس ٹرین کے ذریعے ہجرت کرنے والے تمام افراد کو پہلے گولیاں ماری گئیں
اور پھر تلواروں کے ذریعے ان کے ٹکڑے کئے گئے،،پندرہ اگست کو مخدومی صاحب
اپنے والدین کے ہمراہ بھی ہندوستان سے لاہور جانے والی ٹرین پر لاہور آئے
راستے میں انکی ٹرین پر بھی گولیاں چلائی گئیں،جس طرح کے حالات ہو گئے تھے
انہوں نے بھی کلمے پڑھ لئے تھے،بحرحال اللہ نے انکو بحفاظت لاہور پہنچا دیا، انہوں نے بتایا کہ
جو ٹرین چودہ اگست کو امرتسر سے لاہور پہنچی
اس پر پچیس سو مسلمان سوار تھے، جنہیں سکھوں نے حملے کر کے شہید کر دیا
ان میں سے ایک بھی مسلماں زندہ نہیں بچا تھا،ان سب کی لاشوں کو کامران بارہ دری کے عقب میں دریائے راوی کے ساتھ اجتماعی طور پر دفن کیا گیا،جس کا میں چشم دید گواہ ہوں
مخدومی صاحب ہجرت کے وقت نویں جماعت کے طالبعلم تھے،لاہور سکونت کرنے کے بعد
مسلم ماڈل ہائی سکول لاہور میں داخلہ لیا،وہاں سے میٹرک کیا،اور پھر دیال سنگھ کالج میں داخلہ لے لیا
ابھی انٹر کیا ہی تھا کہ انکو امپیریل بنک میں نوکری مل گئی
تقریبا آٹھ سال بینک کی نوکری کے بعد 1958 میں امپیریل بنک بند ہو گیا،پھر اصغر مخدومی لاہور سے لائلپور شفٹ ہوگئے
اور ٹیکسٹائل سٹی ہونے کے ناطے،ڈائیز اینڈ کیمیکل کا بزنس شروع کیا
اور اس کے ساتھ انہوں نے سیمنٹ کی ٹریڈنگ بھی شروع کی،اور کافی عرصہ
پنجاب سیمنٹ سٹاکسٹ ایسوسی ایشن کے صدربھی رہے
اس دوران انکو خیال آیا کہ تاجروں کے کاز کیلئے کام کیا جائے،اس وقت صرف لاہور چیمبر آف کامرس ہی تھا
اور لائلپور کے تاجران کیلئے کوئی چیمبر موجود نہیں تھا،مخدومی صاحب نے
لائلپور کے امپورٹ، ایکسپورٹ کرنے والے تاجروں کو اکٹھا کیا
اور لاہور چیمبر آف کامرس کا ممبر بنوایا،1968 میں
لائلپور امپورٹ ٹریڈ گروپ،1971 میں تاجروں کے چھوٹے طبقے کو
اپ لفٹ کرنے کےلئے کام کیا،1972 میں لائلپور ایسوسی ایشن اینڈ ٹریڈ انڈسٹری کا وجود عمل میں آیا
اس کے بعد لاہور چیمبر آف کامرس نے لائلپور کے تاجروں کی ممبر شپ
ختم کر دی،1972 میں ہی اصغر مخدومی نے لائلپور کے تاجروں کے لئے الگ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے لئے کوششیں شروع کر دیں
اور باضابطہ منسٹری آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں لائلپور چیمبر کے لئے
درخواست جمع کروائی،1974 میں ان کی کوششوں سے منسٹری آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی طرف سے
اجازت نامہ سرٹیفکیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے
یہ واحد چیمبر تھا، جسکی منظوری اسمبلی کے اجلاس میں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے دی
اورقومی اسمبلی کے فلور پر چیمبر کے حصول کے لئے قرارداد وزیر تجارت جے اے رحیم نے پیش کی تھی،اسی سال 1974 کو ہی اصغر مخدومی کی کوششوں سے لائلپور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا قیام عمل میں آگیا
ان کوششوں میں چوہدری عبدالغنی،میاں احسان اور نرگس نعیم بھی شامل تھے،کثرت رائے سے پبلک سلک مل کے مالک عبدالحکیم گوریجہ کو لائلپور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا پہلا صدر بنا دیا گیا،
با ضابطہ الیکشن 1975 میں ہوئے،جس میں صدر کی سیٹ کے لئے اصغر مخدومی اور نذر شاہ کے درمیان مقابلہ تھا
لیکن دوستوں کے کہنے پر مخدومی صاحب نذر شاہ کے حق میں دستبردار ہو گئے
اور نذر شاہ بلا مقابلہ صدر منخب ہو گئے،یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ
اصغر مخدومی صاحب نے لائلپور چیمبر آف کامرس بنانے کے لئے جو اجازت نامہ حکومت سے حاصل کیا تھا،وہ آج بھی لائلپور میوزیم میں محفوظ ہے
اصغر مخدومی صاحب کا ایک کام یہ بھی تھا کہ تاجروں کے لئے حکومت کو سیلف اسیسمنٹ سکیم کی نشاندہی کی،اور اس سکیم کو منظور کروایا
تاجروں کو انکم ٹیکس گزار بنانے میں بھی انکاکردار نمایاں ہے،اس کے علاوہ لائلپور میں ایکسپورٹر شاذو نادر ہی تھے،مخدومی صاحب نے تاجروں کو ایکسپورٹ کی طرف نہ صرف مائل کیا،بلکہ ایکسپورٹ پروموشن بیورو کا دفتر بھی لائلپور کے لئے منظور کروایا
منظوری کی اطلاع دینے کے لئے اسلام آباد سے ڈائریکٹر جنرل ایکسپورٹ پروموشن بیورو،اے یو بٹ خوشخبری دینے کے لئے خود لائلپور آئے
ساتھ یہ بھی بتایا کہ آپ کے شہر کے لئے،ایکسپورٹ پروموشن بیورو دفتر کی منظوری دینے کے بعد،حکومت کی طرف سے میری تعیناتی بطورٹریڈ کمشنر سری لنکا ہو گئی ہے
مخدومی صاحب کے پاس پرانے نادر سکے اور ٹکٹیں بھی تھیں،جو انہوں نے ایبٹ آباد،فیصل آباد اور چلڈرن کمپلیکس میوزیم لاہور میں عطیہ کر دئے تھے
اصغر مخدومی صاحب کی خدمات تحریک پاکستان سے استحکام پاکستان تک،آج ترانوے سال کی عمر میں بھی انکا جذبہ ،حوصلہ اور آنکھوں کی چمک اسی طرح جواں ہیں،جو جذبہ ان کی بھر پور جوانی میں تھا
ان کی ہمت،حوصلہ، خدمات اور معلومات پر لوگوں کی طرف سے ان کو “چلتا پھرتا پاکستان”کا خطاب دیا گیا ہے،ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی ان کو صحت تندرستی عطا کرے،وہ ہمارے لئے کسی اثاثے سے کم نہیں

شاہد نسیم چوہدری
ٹارگٹ

27/02/24

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/02/p3-20-1-scaled.jpg

articlecolumnsdailyelectionsgooglenewspakistantodayupdates
Comments (0)
Add Comment