پی سی بی میں مضبوط سلیکشن کمیٹی اور انتظامی ٹیم کی ضرورت


میں نے پاکستان کرکٹ بورڈ میں ذکا ء اشرف کے ساتھ کام تو نہیں کیا ،مگر ان کے بارے میں یہ بات عام ہے کہ وہ پروفیشنل انداز میں کام کرنے کے عادی ہیں وہ ہوا کے رخ پر نہیں چلتے ، اپنے فیصلے کرنا اور منوانا جانتے ہیں اگر انہیں وقت مل گیا تو امید ہے کہ وہ پاکستان کرکٹ سسٹم میں بہتری لائیں گے۔نجم سیٹھی نے بھی اپنے دور میں اچھے کام کئے ہیں، پاکستان اگلے ماہ ایشیا کپ کے چار میچوں کی میزبانی کررہا ہے۔ ملتان سے ایشیا کپ کا آغاز اس لحاظ سے اچھا فیصلہ ہے کہ ملتان چھوٹا شہر ہے اور اس شہر میں نیپال کا میچ دیکھنے تماشائی بڑی تعداد میں آئیں گے۔ 

ذکا ء اشرف کے پچھلے دور میں پاکستان نے انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز تین صفر سے جیتی تھی اور بنگلہ دیش میں ایشیا کپ جیتا تھا۔ پھر مصباح الحق کو سمجھا کر انہیں وائٹ بال چھوڑنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس لحاظ سے وہ لوپروفائل میں رہنے والے قابل شخص ہیں۔ بڑے بزنس ہاوس کو چلا نے کے علاوہ انہوں نے پی سی بی میں بھی اپنی صلاحیتیں منوائیں ہیں۔ ایشیا کپ کے تیرہ میچوں کے لیے چار وینیوز کا انتخاب عمل میں آیا ہے۔ میزبان پاکستان چار میچوں کاانعقاد کرے گا۔ ملتان میں ایک جبکہ لاہور میں تین میچ کھیلے جائیں گے۔ سری لنکا میں نو میچز ہوں گے جن میں سے کینڈی میں تین اور کولمبو میں چھ میچز کھیلے جائیں گے۔ 

پاکستان میں ملتان ، ٹورنامنٹ کے افتتاحی میچ کی میزبانی کرے گا جو30 اگست کو پاکستان اور نیپال کے درمیان کھیلا جائے گا۔ سری لنکا میں کینڈی پہلے راؤنڈ کے تین میچوں کی میزبانی کرے گا جس کے بعد کولمبو میں سپر فور مرحلے کے پانچ میچوں کے علاوہ 17ستمبر کو ہونے والا فائنل بھی کھیلا جائے گا۔ سری لنکا اپنا پہلا میچ 31 اگست کو بنگلہ دیش کے خلاف کینڈی میں کھیلے گا جبکہ بھارت ٹورنامنٹ میں اپنا آغاز پاکستان کے خلاف میچ سے کرے گا جو 2 ستمبر کو کینڈی میں کھیلا جائے گا۔ اگر پاکستان اور بھارت دونوں نے سپر فور مرحلے میں جگہ بنالی تو پھر یہ دونوں ایک بار پھر 10 ستمبر کو کولمبو میں مدمقابل ہوں گے۔

ملتان میں افتتاحی میچ کے بعد لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں ہونے والے میچوں میں 3 ستمبر کو بنگلہ دیش اور افغانستان کی ٹیمیں مدمقابل ہوں گی۔ 5 ستمبر کو افغانستان کا مقابلہ سری لنکا سے ہوگا ۔اگر صورتحال سیڈنگ کے مطابق رہی تو پھر 6 ستمبر کو سپر فور مرحلے کا پہلا میچ بھی لاہور میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان کھیلا جائے گا۔ پاکستان اور انڈیا کو سیڈنگ میں بالترتیب اے ون اور اے ٹو رکھا گیا ہے۔ ایشیا کپ سمیت پاکستان کو دو سال مصروف کرکٹ سیزن کھیلنا ہے۔

پاکستانی کرکٹ ٹیم 24۔2023 ء کے سیزن میں نیوزی لینڈ کے خلاف دس اضافی ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز کھیلے گی۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم آسٹریلیا میں 14 دسمبر سے 7 جنوری تک آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کے تین میچ کھیلنے کے بعد نیوزی لینڈ پہنچے گی جہاں وہ پانچ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز کھیلے گی جو دراصل ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے اس کی تیاریوں کا آغاز ہوگا۔ ان دس اضافی ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں کا مطلب یہ ہے کہ ویسٹ انڈیز اور امریکہ میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے قبل پاکستانی کرکٹ ٹیم 19 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز کھیلے گی جن میں دس نیوزی لینڈ کے خلاف تین ہالینڈ کے خلاف دو آئرلینڈ کے خلاف اور چار انگلینڈ کے خلاف ہونگے۔

ان 19 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں کے علاوہ پاکستان کرکٹ بورڈ فروری مارچ 2024ء میں پاکستان سپر لیگ کی میزبانی بھی کرے گا۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے ان اضافی ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں کو شیڈول کرنے کے لیے نیوزی لینڈ کرکٹ اور ویسٹ انڈیز کرکٹ سے مشاورت کے بعد اپنے فیوچر ٹور پروگرام 2025۔2023 میں معمولی ردو بدل کیا ہے۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کے دو ٹیسٹ میچز جو پہلے فروری 2024ء میں پاکستان میں کھیلے جانے تھے اب جنوری 2025ء میں کھیلے جائیں گے اسی طرح پاکستانی کرکٹ ٹیم کا دورۂ نیوزی لینڈ جو جنوری 2025ء میں ہونا تھا اب اپریل 2025ء میں ہوگا۔

اس دورے میں پاکستانی ٹیم تین ون ڈے انٹرنیشنل اور پانچ ٹی ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ کھیلے گی۔آئی سی سی کی ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل ٹیم رینکنگ میں نیوزی لینڈ اور پاکستان اسوقت بالترتیب تیسرے اور چوتھے نمبر پر ہیں اور دونوں کے درمیان صرف دو پوائنٹس کا فرق ہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے پاکستانی ٹیم کےنظرثانی شدہ فیوچر ٹور پروگرام 2025۔2023 میں شامل تمام ٹیسٹ میچز آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ میں شمار ہونگےاس وقت پاکستانی ٹیم دو ٹیسٹ کی سیریز کھیلنے سری لنکا میں ہے۔اگست میںپاکستان بمقابلہ افغانستان کے درمیان تین ون ڈے انٹرنیشنل ہوں گے۔ ستمبرمیں ایشیا کپ پاکستان اور سری لنکا میں ہوگا۔

اکتوبر نومبر میں آئی سی سی مینز کرکٹ ورلڈ کپ بھارت میں کھیلا جائے گا۔دسمبر جنوری میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کا دورۂ آسٹریلیا میں تین ٹیسٹ کھیلنے جائے گی۔ چوہدری ذکاء اشرف کو ایک مضبوط سلیکشن کمیٹی اور اپنی مضبوط انتظامی ٹیم بنانا ہوگی تاکہ مستقبل کے اسائنمنٹس کو سامنے رکھ کر تیاری کی جاسکے۔ مجھےامید ہے کہ ان کے دور میں پاکستانی ٹیم مزید فتوحات اپنے نام کرے گی اور شائقین کرکٹ کو کھیل کے میدان سے اچھی خبریں ملیں گی۔

Comments (0)
Add Comment