راشد نور

سید جمال زیدی

بقول معروف شاعر راشد نور، کراچی و اسلام آباد ہر دو منزلوں کے محبوب, صرف محبوب ظفر ہی ہیں، یہ ان کا کہنا ہے اور ہمارا ماننا بھی، تو موصول ہوا محبت نامہ محبوب ظفر کی زاویہ اور احمد فراز ٹرسٹ سے بنام جمال زیدی حاضر ہو، تقریب پذیرائی و شعری نشست، ادارہ فروغ قومی زبان میں سہ پہر 3 بجے راشد نور کے اعزاز میں، یہ وہی راشد نور ہیں جنہوں نے گذشتہ 60 سال صحافت اور ادب کی آبیاری کو دیے ہیں، شاعر، کالم نگار، صحافی اور بہت کچھ، حال مقیم شکاگو امریکہ، اسلام آباد میں تشریف فرما ہیں سو تقریب بہر ملاقات چاہیے، سو یہ سوچتے ہوے کہ کہیں پچھلی تقریب کی طرح غیر حاضری نہ ہوجاے، ہوا کچھ یوں تھا کہ سخت ترین گرمی میں ادارہ فروغ قومی زبان کے کانفرنس ہال میں ایک تقریب محبوب ظفر نے سجارکھی تھی تو دوسری جانب میں نے ڈاکٹر عبید بازغ امر کے اعزاز بسلسلہ تکمیل ڈاکٹریٹ منعقد کی جانے والی تقریب و مشاعرہ کی نظامت کے فرائض انجام دینے تھے اس لیے مقتدرہ میں غیرحاضری لگ گی، اس بار اپنے بھائی محبوب ظفر کو تاویل پیش کرنا مشکل تھا اس لیے تقریب میں میزبانوں سے پہلے ہی جو مہمان پہنچ چکے تھے ان میں پروفیسر عرفان جمیل، معروف صوفی شاعر وفا چشتی صاحب اور بندہ ناچیز جمال زیدی تینوں افراد نے آنے والے میزبانوں کا استقبال کیا، بینر پر واضح تھا کہ ادبی، ثقافتی، سماجی تنظیم “زاویہ” کہ جس کے روح رواں محبوب ظفر اور طاہرہ غزل ہیں، اور سعدی فراز موجودہ چیئرمین “احمد فراز ٹرسٹ” نے مشترکہ طور پر سینیر صحافی اور معروف شاعر راشد نور (حالیہ سکونت پذیر شکاگو، امریکہ) کے اعزاز میں شام اور مشاعرہ کا اہتمام کررکھا تھا، اس پروگرام میں صدارت کیلیے سینٹر شاعر حلیم قریشی کو دعوت دی گئی، جو عہد حاضر میں لیجنڈ مانے جاتے ہیں اور ان کا کسی تقریب کی سرپرستی کرنا ہم سب کیلیے غنیمت اور اعزاز ہے، ادارہ فروغ قومی زبان کے ڈایرکٹر جنرل پروفیسر ڈاکٹر مظہر سلیم کہ جن کا حوالہ فارسی ہے اور انہوں نے تہران یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ہی اپنی خدمات سرانجام دیتے ہوے وایس چانسلر تک جا پہنچے مزید یہ کہ یونیورسٹی آف سرگودھا کے بھی وایس چانسلر رہے ہیں، نہایت ملنسار اور دوستوں کے دوست ہیں، ان کے آنے سے ادارے میں آئے روز رونق لگی رہتی ہے اور تقریبات کا سلسلہ گرمجوش سے جاری ہے، آپ آج کی اس تقریب پذیرائی میں مہمان خصوصی تھے اور تمام وقت ادبی دوستوں کے ساتھ تشریف فرما رہے، تلاوت قرآن پاک سے آغاز محبوب ظفر نے اور اس محفل کو دوستوں کا اکھنڈ قرار دیا مزید یہ کہ آج کے صاحب شام راشد نور سے اپنے نصف صدی کے قصہ کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ یہ پل دو پل کی بات نہیں، کراچی کی ادبی محفلوں میں ساتھ شرکت، کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے صدر کی حیثیت میں راشد نور کی معاونت، پاکستان آرٹس کونسل کراچی میں گذرا وقت العرض 70 کی دہائی کے منظر نامے کو اس طرح بیان کیا گویا ہم سب ہی اسکا حصہ لگے، اب چونکہ 1985 سے محبوب ظفر مستقل طور پر اسلام آباد کے مکین ہیں اور داشد نور شکاگو کے پھر بھی دوری. دوری نہیں ہے کیونکہ سوشل میڈیا نے ایک کلک کی دوری پر رکھا ہوا ہے، صدارت کیلیے بزرگ شاعر حلیم قریشی کو زحمت دی گئی تھی جو اپنا تعارف آپ ہیں. احمد فراز کے قریبی دوستوں میں شمار ہے ان کا، آپ نے تمام تقریب میں بہت حوصلہ اور تحمل سے سب شرکاء کوسنا اور خطبہ صدارت میں بہت دلچسپ پیراے میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے قیام کراچی میں مسکن گلشن اقبال میں تھا، جو “صلاے عام ہے یاران نکتہ کے لیے ” کے مصداق خود ان سے زیادہ دوستوں کی آماجگاہ تھی اور فراز صاحب بھی اسی قبیلے کا حصہ تھے، راشد نور سے بھی اسی اکٹھ میں تعارف ہوا تھا جو رفتہ رفتہ دوستی میں بدل گیا ہے اور اب تو لگتا ہے کہ راشد، محبوب ظفر کا اگر 50 سال سے دوست ہے تو میرا 60 سال سے زیادہ پرانا ہوگا، اب امریکہ جابسا ہے تو سالوں میں ملاقات ہوتی ہے، لیکن سوشل میڈیا ایپس نے یہ دوری بھی ختم کردی ہے، مہمان خصوصی پروفیسر ڈاکٹر مظہر سلیم ڈایرکٹر جنرل ادارہ ہٰذا نے بھی دونوں تنظیموں “زاویہ” اور “احمد فراز ٹرسٹ” کو یقین دہانی کروائی کہ یہ ایک قومی ادارہ ہے جو سب کے لیے ہے، کوی بھی تنظیم پروگرام رکھنا چاہے اسے خوش آمدید کہیں گے. ایک خاص چیز جو مظہر سلیم نے بتا کر محفل کو زعفران بنا دیا کہ. راشد نور تیسرے شاعر ہیں جو اپنی بیگم کو حاضر ناظر جان کر تقریبات میں شریک ہوتے ہیں، پہلا نمبر اظہارالحق اور دوسرے نمبر پر محبوب ظفر کا شمار ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ راشد نور سے اس وقت کی یاد اللہ ہے جب وہ نوائے وقت کراچی کے ادبی صفحہ کے نگران اور صہبا اختر کے ادبی پرچہ “افکار” کے مدیر تھے، دل و جان سے ادب کی خدمت کی ہے، مظہر سلیم نے فرداً فرداً زاویہ اور نیے چیرمین احمد فراز ٹرسٹ، سعدی فراز کا شکریہ ادا کیا کہ آپ دونوں نے مل کر اتنی خوبصورت شام کا انعقاد کیا، سعدی فراز نے بھی ٹرسٹ کی سرگرمیوں کا ذکر کیا جو شاعروں، ادیبوں، ادبی سکالرز اور ہر خاص و عام کے لیے کی جارہی ہیں، آخر میں تقریب کے دولہا راشد نور کو احمد فراز ٹرسٹ کی جانب سے اعزازی شیلڈ بھی پیش کی گئی جس کے لیے راشد نور کا کہنا تھا کہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ احمد فراز جیسے آفاقی شاعر کے نام سے مجھے شیلڈ ملے گی، میرے لیے باعث افتخار ہے اور میں اہالیان اسلام آباد کا بھی ممنون ہوں کہ انہوں نے اپنی مصروف زندگیوں سے وقت پس انداز کرکے میری خاطر تشریف لائے، اسکے بعد ایک یادگار فوٹو سیشن تھا اور یوں آج کی یہ خوبصورت شام اختتام کو پہنچی، میزبانوں سعدی فراز اور محبوب ظفر نے سب کی آمد کا شکریہ ادا کیا

Comments (0)
Add Comment