یکم مئی کو دنیا بھر میں یوم مزدور منایا جاتا ہے. اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد مزدوروں کی حالت زار کو بہتر کرنا ہے. مگر بدقسمتی دیکھے. کہ اس دن کو منانے والے مزدور نہیں. بلکہ وہ لوگ ہیں. جو مزدور کا استحصال کرتے ہیں مزدور تو دو وقت کی فکر میں اس دن بھی محنت مزدوری کر رہا ہوتا ہے. اسے کیا معلوم کہ اس کے لیے بھی سال میں کوئی دن مختص کیا گیا ہے.اس دن کو منانے والے مزدوروں کے حقوق کے نام پر این جی اوز بنا کر سستی شہرت سمیٹنے میں مصروف عمل ہیں. سوشل میڈیا اور الیکڑانک میڈیا پر اس دن مزدوروں کے حقوق پر بہت چرچا کیا جاتا ہے. پھر سال بھر ان سے پوچھا نہیں جاتا. کہ وہ کس حال میں زندگی بسر کر رہے ہیں. ہمارے ملک میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے منصب پر بیٹھا ہوا شخص بھی خود کو مزدور کہتا ہے. مگر حقیقت میں ایسا نہیں. مزدور کے حقوق اور اس کی ماہانہ اجرت کا تعین وہ لوگ کرتے ہیں. جو اس کے دشمن ہیں. یہ ہرگز نہیں چاہتے. کہ مزدور بھی کبھی خوشحال زندگی گزار سکے. منہ میں سونے کا چمچ لیکر پیدا ہونے والے کیا جانے کہ مزدور کی مشکلات کیا ہیں. اس کے گھر میں کھانے کو کچھ ہے بھی کہ نہیں. دنیا بھر میں مالدار صاحب اقتدار لوگوں کے ساتھ بھی مزدور ہوتے ہیں. وہ ان کے ڈرائیور، گن مین، آفس بوائے وغیرہ ہوتے ہیں. کیا انہوں نے کبھی ان کی زندگی بارے جاننے کی کوشش کی ہے. ہرگز نہیں. یہی لوگ یوم مزدور پر تقاریر کرتے ہیں. کہ ہم مزدور کی کم از کم ماہانہ اجرت اتنی کر رہے ہیں. اس کی فلاح و بہبود کے لیے متعدد پروگرام شروع کر رہے ہیں. ایسا صرف اور صرف باتوں کی حد تک ہوتا ہے. حقیقت کا اس سے کوئی تعلق نہیں. اگر انہوں نے کچھ کرنا ہو. تو سب سے پہلے اپنی فیکڑیوں اور اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے لیے کچھ کرے. مزدور تو اپنی سانسیں، بچپن، معصومیت ،عزت نفس بیچتا ہے. کبھی آپ نے غبارے بیچنے والے کو دیکھا ہے. کہ وہ غباروں میں اپنے منہ سے ہوا بھرتا ہے. مطلب اپنی سانسوں کو غباروں میں بھر کر بیچتا ہے. ہم اس کی سانسیں خریدنے کے لیے بھی اس سے بحث کرکے قیمت کم کرواتے ہیں. زندہ رہنے کے لیے مزدور کو اپنی سانسیں بیچنا پڑتی ہے. تب جاکر اس کے گھر میں چولہا جلتا ہے. سرمایہ دار، سرکاری افسران اور سیاسی لوگوں کے گھروں میں ان کے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے چھوٹے چھوٹے معصوم بچے بچیوں کو ملازم رکھا جاتا ہے. جن کے اپنے کھیل کود کے دن ہوتے ہیں. وہ دوسروں کے بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں. ان کے کھلونوں کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں. غربت بھی انسان کو کس قدر ذلیل و رسوا کروا دیتی ہے. یہ کوئی مزدور سے پوچھے. جب کبھی یہ لوگ کہی باہر کھانا کھانے جاتے ہیں. تو اس معصوم مزدور کو گاڑی کی ڈیگی میں بیٹھا دیتے ہیں اس کو اپنے ساتھ بیٹھنا بھی ان کی شان میں گستاخی کے مترادف ہے. اپنا بچا ہوا کھانا اسے دیا جاتا ہے. اسے زمین پر بیٹھایا جاتا ہے. انسانیت کی تذلیل کرنے والے مزدور کی بہتری کے لیے کیا کرے گے..وڈیرے، چوہدریوں کے گھروں میں نسل در نسل لوگ غلاموں کی طرح کام کرتے ہیں. ان کا بچپن، جوانی، بڑھاپا ان کی خدمت کرتے کرتے گزر جاتا ہے. مگر یہ کبھی ان کو اپنے برابر نہیں بیٹھنے دیتے. ان کا مقام ان کے جوتوں میں ہوتا ہے. اینٹوں کے بھٹوں پر غریب لوگوں کو غلاموں کی طرح بیچا جاتا ہے. ٹھیکیدار ایک غریب خاندان کو محض چند ہزار روپے دے کر ملازم رکھ لیتا ہے. اس خاندان کے تمام افراد مرد، عورتیں ،بچے سبھی اس کے غلام بن جاتے ہیں. جو ساری زندگی اس کے بھٹہ پر کام کرتے ہیں. چائلڈ لیبر کی روک تھام کے لیے کاغذوں کی حد تک قوانین بنائے جاتے ہیں. مگر ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا. کیونکہ جہنوں نے عمل درآمد کروانا ہوتا ہے. وہ خود چائلڈ لیبر سے کام کرواتے ہیں. ان کے گھروں اور دفتروں میں معصوم اور ننھے منے بچے کام کرتے ہیں. یہ چھوٹے وقت کے بڑے استاد ہوتے ہیں. جو کم عمری میں اپنے خاندان کی پرورش کرتے ہیں. قانون بنانے والے ،اس پر عمل درآمد کروانے والے اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والے ہی جب مزدور کے استحصال میں شامل ہو. تو مزدور کی حالت زار کیسے بدل سکتی ہے. سیاستدان کے گھر میں ضعیف، کم عمر، جوان ملازم ہوتا ہے. وہ اس کی تخواہ انتہائی کم دیتا ہے. کیونکہ اسے اس کی مالی مشکلات سے کوئی سروکار نہیں. اسمبلی میں بیٹھ کر بڑی بڑی باتیں کرنا محض ایک دھوکہ ہے. سرکاری ملازمین جہنوں نے مزدوروں کے بنیادی حقوق بارے عملی اقدامات لینے ہوتے ہیں . وہ خود مزدور کی حق تلفی میں مصروف ہوتے ہیں. جہنوں نے مزدور کی حق تلفی کرنے پر سزا دینا ہوتی ہے. وہ بھی اس مکروہ دھندہ میں شامل ہیں. کتنے ججز ہیں. جن کے گھروں میں معصوم بچے ملازم ہیں. خواتین ججز تو عدالتوں میں اپنے بچوں کو لاتی ہیں. تو معصوم ملازم بچی بھی اس بچے کی دیکھ بھال کے لیے ساتھ ہوتی ہے. یہ لوگ مزدور کے حق میں کیا کرے گے. کتنے واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں. کہ مالک نے اپنے ملازم پر تشدد کیا ہے. مگر کوئی پوچھنے والا نہیں. کیونکہ وقت کے فرعون مزدور کو تو انسان ہی نہیں سمجھتے. یہ صرف اور صرف اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں. کہ ہم کیونکہ مالدار اور طاقت ور ہیں. اس لیے کمزور اور مزدور کا کام ہے. ہماری خدمت کرنا. ان حقوق کے بدلے وہ اپنا فرض بھول جاتے ہیں. کہ انہیں بھی مزدور کی اچھی دیکھ بھال کرنی چاہیے. اس کی خوراک، لباس وغیرہ کا خیال رکھنا ان کا فرض ہے. یوم مزدور ہر سال آتا ہے. مگر مزدور کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی. مزدور تو اس دن بھی مزدوری کر رہا ہوتا ہے. اس کے نام پر