**پہلگام دہشت گردی — عالمی ضمیر کے لیے لمحۂ فکریہ*

تحریر۔۔۔۔امجد علی

دہشت گردی آج بھی انسانی تہذیب اور عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنی ہوئی ہے۔ یہ نہ صرف قیمتی جانوں کے ضیاع کا سبب بنتی ہے بلکہ بین الاقوامی تعلقات، معاشی استحکام اور علاقائی سلامتی کو بھی شدید متاثر کرتی ہے۔ جب اقتدار کی ہوس، سیاسی مفادات اور انا پرستی غالب آ جاتی ہے تو جنگ اور دہشت گردی جیسے سانحات جنم لیتے ہیں۔ چند روز قبل 22 اپریل 2025 کو مقبوضہ کشمیر کے پُرامن اور خوبصورت سیاحتی مقام پہلگام میں ایک المناک واقعہ پیش آیا، جہاں 26 معصوم سیاحوں کو بے رحمانہ فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ طویل عرصے کے بعد وادی میں قائم ہونے والی سکون کی فضا کو اس اندوہناک واقعے نے چکناچور کر دیا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ بھارتی حکومت نے واقعے کے فوراً بعد کسی تحقیق یا ثبوت کے بغیر پاکستان پر الزامات کی بارش کر دی اور یکطرفہ اور اشتعال انگیز اقدامات کا آغاز کیا۔
بھارت نے پاکستان کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات کو نشانہ بناتے ہوئے متعدد سخت فیصلے کیے، جن میں سندھ طاس معاہدے کی معطلی کی دھمکی، اٹاری بارڈر کی بندش، ویزا پالیسی کی منسوخی، اور پاکستانی شہریوں کو 24 گھنٹے میں ملک چھوڑنے کا حکم شامل ہے۔ یہ ردِعمل نہ صرف غیر ذمہ دارانہ تھا بلکہ ایٹمی قوتوں کے درمیان کشیدگی بڑھا کر پورے خطے کو خطرناک صورتحال سے دوچار کرنے کے مترادف بھی ہے۔
پاکستان نے فوری طور پر واقعے کی شدید مذمت کی اور دہشت گردی سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے قومی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا۔ دفاع وطن کے لیے بھرپور عزم اور سفارتی تدبر کا مظاہرہ کیا گیا، جو ایک سنجیدہ اور ذمہ دار ریاست کی پہچان ہے۔ مگر بھارتی عزائم کو دیکھتے پاکستان نے بھی بعینہ اسی طرح کی پابندیوں کا اعلان کیا جن میں ملکی فضائی حدود انڈین ائیر لائنز یا انکے لیے اپریٹڈ فلائٹوں کے لیے بند کر دی گئی ہیں۔ مزید شملہ معاہدہ سے انخلا کا عندیہ بھی دیا گیا ہے۔ صرف پاکستان آئے ہوئے سکھ یاتریوں کے لیے استثنا رکھا گیا ہے۔
ملکی تجزیہ نگاروں نے اس واقعے کو “فالس فلیگ آپریشن” قرار دیا ہے — یعنی ایسا حملہ جو کسی مخصوص سیاسی یا تزویراتی مقصد کے تحت خود اپنی سرزمین پر کرایا جائے تاکہ دشمن ملک پر الزام دھر کر فائدہ حاصل کیا جا سکے۔ پہلگام کی جغرافیائی لوکیشن، جو لائن آف کنٹرول سے تقریباً 400 کلومیٹر دور ہے، اور وہاں بھارتی انٹیلی جنس اور سیکیورٹی اداروں کی موجودگی اس شبہے کو مزید تقویت دیتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اکثر حکومتیں داخلی بحران، عوامی ناراضی یا سیاسی کمزوریوں سے توجہ ہٹانے کے لیے ایسے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہیں۔ جنگی فضا پیدا کرنا اور حب الوطنی کا رنگ چڑھانا ایک آزمودہ سیاسی حربہ ہے، جس کا نقصان بالآخر عام انسان کو بھگتنا پڑتا ہے۔
عالمی سیاست میں اکثر طاقتور ممالک اپنے مفادات کے حصول کے لیے پس پردہ سازشوں، خفیہ آپریشنز اور سٹریٹیجک چالوں کا سہارا لیتے ہیں۔ ان کی بنیادی ترجیح ہمیشہ ان علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنا ہوتی ہے جو قدرتی وسائل یا معدنیات سے مالا مال ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سپر پاورز اکثر کمزور اور ترقی پذیر ممالک میں مقامی سطح کے وقتی فائدہ اٹھانے والے لیڈروں کو استعمال کرکے ان کے قیمتی وسائل پر قبضہ جما لیتی ہیں۔ اس طرزِ عمل کی ایک بہترین تشبیہ فطرت سے لی جا سکتی ہے: جس طرح بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو نگل جاتی ہیں، اسی طرح بڑی طاقتیں کمزور قوموں کو ہڑپ کر لیتی ہیں۔

اس پس منظر میں ایک اور تشویشناک پہلو بھارت کے جارحانہ اقدامات کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ بھارت نے سندھ طاس معاہدے جیسے ایک بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ معاہدے کی نہایت دیدہ دلیری سے خلاف ورزی کی ہے۔ وہ یا تو دریاؤں کے پانی کو روک کر پاکستان کے زرعی اور معاشی ڈھانچے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے، یا پھر اچانک پانی کا بے تحاشا اخراج کر کے تباہ کن سیلابوں کی صورت میں مسائل کھڑے کرتا ہے۔ یہ غیر ذمہ دارانہ اقدامات نہ صرف ایک دوست ہمسایہ ملک کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں بلکہ خطے کے امن کو بھی سنگین خطرات سے دوچار کر دیتے ہیں۔ مزید برآں، بھارتی ڈیجیٹل میڈیا اپنی جارحانہ پروپیگنڈہ مہم کے ذریعے ان حالات کو مزید بگاڑنے میں مصروف ہے۔ اشتعال انگیز بیانیے اور لفظی گولہ باری کے ذریعے جلتی پر تیل چھڑکا جا رہا ہے، جس کا مقصد پاکستان کے اندرونی و بیرونی محاذ پر دباؤ بڑھانا ہے۔

دوسری جانب ہمیں اپنی کوتاہیوں پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ افسوس کا مقام ہے کہ بعض اوقات ہمارے اپنے اقدامات بھی دشمنوں کے عزائم کو تقویت دیتے ہیں۔ حال ہی میں پاکستان کے ایک وزیر کا ایک انٹرویو منظر عام پر آیا، جس میں انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ ہم پچھلے تین دہائیوں سے مخصوص پالیسیاں امریکہ اور برطانیہ کے کہنے پر چلا رہے ہیں۔ اس طرح کے بیانات نہایت غیر دانشمندانہ ہیں، جو پاکستان کے لیے سفارتی محاذ پر شدید نقصان کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہ خود اعترافی موقف نہ صرف ہمارے قومی موقف کو کمزور کرتا ہے بلکہ دشمنوں کو ہمارے خلاف مزید پروپیگنڈہ کرنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہم ان عالمی طاقتوں کی ممکنہ حمایت سے بھی محروم ہو سکتے ہیں، جن کی مدد کسی تنازعے کی صورت میں ہمارے لیے اہمیت رکھتی ہے۔

ان حساس معاملات میں ہمارا طرزِ عمل انتہائی تدبر اور سنجیدگی کا متقاضی ہے۔ بجائے اس کے کہ ہم جوابی کارروائیوں یا ایٹمی طاقت کی نمائش پر زور دیں، ہمیں چاہیے کہ اس تمام واقعے کا کثیر جہتی اور تکنیکی بنیادوں پر تفصیلی تجزیہ کریں۔ ہمارے سفارت کاروں کو بین الاقوامی فورمز پر دلائل اور شواہد کی روشنی میں بھارتی خلاف ورزیوں اور اپنے موقف کی برتری ثابت کرنی چاہیے۔ اس طریقے سے ہم دنیا کو ایک ذمہ دار اور پرامن قوم کے طور پر اپنی شناخت کرا سکتے ہیں۔ اگر ہم تدبر، حکمت عملی اور سفارتی مہارت کا مظاہرہ کرتے، تو نہ صرف عالمی برادری ہمارے موقف کو سراہتی

Comments (0)
Add Comment