پہلگام ایڈونچر کے بعد اقدامات سے دونوں ممالک کا تجارتی خسارہ

اج کا اداریہ

پہلگام ایڈونچر کے بعد بھارت نے اپنی سکیورٹی کی ناکامی پر پردہ ڈالنے اور بھارتی عوام کے غیض وغضب سے بچنے کے لیے جو اقدامات اٹھائے ہیں اسکا دندان شکن جواب ملنے پر اب دلی سرکار کی حالت کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف ہے
مودی سرکار نے پاکستان کے خلاف جو غیرمعمولی نوعیت کے اقدامات کیے جن میں سندھ طاس معاہدے کی معطلی، واہگہ اٹاری سرحد کی بندش، ویزا سہولتیں واپس لینے کے علاوہ سفارتی روابط محدود کے رد عمل طور پر پاکستان کو جواب جن میں دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والے تمام دو طرفہ معاہدے، جن میں شملہ معاہدہ بھی شامل ہے، معطل کر دیے اس کے علاوہ فضائی حدود اور سرحد بند کرنے کے علاوہ تجارت کا عمل معطل، انڈیا کے لیے پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے پر پابندی اور سفارتی سطح پر انڈیا کو جواب دیتے ہوئے بھی متعدد پابندیاں عائد کیں جس سے بھارتی منصوبہ سازوں کی سٹھی گم ہوگئی
پاکستان نے بھارتی شہریوں کو ملک چھوڑنے اور سفارتی عملہ محدود کرنے کو کہہ دیا
پہلگام حملے کے بعد پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی روابط منقطع ہونے کے بعد دونوں ممالک کو تجارتی طور پر نقصان ہو گاتاہم مالیاتی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ بھارت کو ان پابندیوں سے زبردست تجارتی خسارے کا سامنا کرنا پڑیگا
واضح رہے کہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت پہلے سے کچھ زیادہ نہیں تھی جس کی وجہ ماضی میں دونوں ممالک کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی تھی۔
دونوں کے درمیان تجارتی تعلقات بہت کم تھے جس میں چند مصنوعات کی تجارت ہوتی تھی۔

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان سے انڈیا کیلیے کھجوریں ‘ نمک اور کھانے پینے کی چند مزید اشیاء بھیجی جاتی ہیں اس لیے تجارتی تعلقات کے خاتمے کے بعد پاکستان کے بیرونی تجارت کے شعبے میں برآمدات کو کسی بڑے نقصان کا اندیشہ نہیں ہے۔‘جبکہ بھارت سے پاکستان ادویات کے لیے خام مال آتا تھا انڈیا دنیا میں ادویات کے لیے خام مال بھیجنے والا بڑا ملک ہے اور پاکستان میں بھی ادویات تیار کرنے والی کمپنیاں انڈیا سے یہ خام مال درآمد کر رہی تھیں۔اب انڈیا سے خام مال نہ آنے کی وجہ پاکستان کو ادویات کہ تیاری کے لیے یہ خام مال کسی دوسرے ملک سے منگوانا پڑے گا جو مہنگا پڑے گا جس سے ادویات کی قیمتوں میں کچھ اضافہ ہوسکتاہے
اسی طرح پاکستان کپاس انڈیا سے درآمد کرتا تھا جس کی مقدار کم ہے۔ پاکستان کو تجارتی تعلقات کے خاتمے سے کم نقصان کم ہوگا تاہم بھارت کو ایک بڑا خسارہ افغانستان کی مارکیٹ میں ہوگا کیونکہ افغانستان کی مارکیٹ میں بھارتی مال پاکستان کے ذریعے جا رہا تھا جو اب رک جائے گا۔‘
اب بھارت کو یہ مال سمندر کے راستے ایران سے بھیجنا پڑے گا، جس پر زیادہ لاگت آئے گی۔
اسی طرح بھارتی مسافر طیاروں کی پاکستان کی فضائی حدود کی بندش سے ان کی ائیر لائنز کو بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا۔
پاکستان سے کچھ مریض علاج معالجےکی غرض سے بھارت جاتے تھے خاص طور پر حکمت کے شعبے میں جہاں انڈیا کو برتری حاصل ہے۔ مگر اب ویزے بند ہونے کے بعد اس کا بھی نقصان بھارت کو ہی اٹھانا پڑیگا
بھارت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کے جواب میں پاکستان کی جانب سے بھارت کیلیے جو پابندیاں عائد کی ہیں اس سے اپنے آپ کو دنیا کی پانچویں قوت کہنے کے دعویداروںطکے ہوش اڑ گئے
شاید بھارت سمیت کسی کو بھی پاکستان کی جانب سے اتنے سخت ردعمل کی توقع نہیں تھیط
پاکستان اور بھارت دو پڑوسی ممالک ہیں اور دونوں میں ان بن کوئی نئی بات نہیں بھارت میں جب بھی تخریب کاری کا کوئی واقعہ رونماہوتا ہے دلی سرکار آو دیکھتی ہے نہ تاو بغیر ثبوت پاکستان پر الزامات کی بارش کردیتی ہے لیکن اس بار عالمی میڈیا کی جانب سے بھارت کے بار بار کے گھسےطپٹے موقف کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی ۔
ادھر اسلام آباد کی جانب سے تجارتی پابندیوں کےساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ تیسرے ممالک کے ذریعے بھی بھارت سے کسی قسم کی تجارت نہیں کی جائے گی۔
دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کے خاتمے سے باہمی نقصان کااندازہ لگایا جائے تو بھات ہرطرح سے خسارے میں رہےگا
قبل ازیں پاکستان اور انڈیا کے درمیان تجارتی تعلقات اس وقت بھی منقطع ہو گئے تھے جب پانچ اگست 2019 کو انڈیا کی مودی حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت اور خود مختاری ختم کر دی تھی۔
کشمیر کے تنازع کے باعث دونوں ملکوں کے سفارتی و تجارتی تعلقات کئی دہائیوں سے متاثر ہیں
واضح رہے کہ فروری 2019 میں جموں و کشمیر میں پلوامہ حملے کے بعد بھارت نے پاکستان کے لیے موسٹ فیورٹ نیشن کا سٹیٹس بھی واپس لے لیا تھا۔
اگر ہم سرکاری اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو سال 2023-24 میں اٹاری سے تقریباً 3,886 کروڑ روپے کی تجارت ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ 71 ہزار 563 افراد نے ایک دوسرے ملک کو جانے کے لیے اس سرحد کو پار کیا ہے۔ یہ تعداد سال 2017-18 میں اس سے زیادہ تھی۔ اس دوران تقریباً 4,148 کروڑ روپے کی تجارت ہوئی اور 80,314 لوگوں نے اس راستے کا استعمال کرتے ہوئے سرحد پار کی۔
اب دونوں حکومتوں کے فیصلوں کی وجہ سے سامان اور لوگوں کی آمدورفت رک جائے گی۔
تو کیا افغانستان سے آنے والا سامان کسی اور راستے سے انڈیا لایا جائے گا؟ اس بارے میں اب بھی غیر یقینی صورتحال ہے۔
2021 میں طالبان نے افغانستان میں عنان اقتدار سنبھالا اس سے پہلے بھی بھارت اور افغانستان کے درمیان تجارت کو فروغ دینے کے لیے فضا کے ذریعے تجارتی مال کی نقل و حرکت ہو رہی تھی۔
سال 2023 میں وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر نے کہا تھا کہ انڈیا اور افغانستان کے درمیان تجارت جاری ہے۔ ایران میں واقع چابہار بندرگاہ کا بھی اس میں کردار ہے۔ تاہم اب پاکستانی راستے بند ہونے ایران کے راستے افغانستان مال پہنچانا انڈیا کیلیے خسارے کا سودا ثابت ہوگا۔
جہاں تک فضائی حدود کی بندش کا معاملہ ہے تو

Comments (0)
Add Comment