ہر سال 23 اپریل کو دنیا بھر میں کتابوں کا عالمی دن نہایت وقار سے منایا جاتا ہے۔ یہ دن صرف کتاب سے محبت کا اعلان نہیں، بلکہ انسان کے اُس ازلی رشتے کی یاد دہانی بھی ہے جو قلم، قرطاس، اور فہم و ادراک کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ کتاب ایک بے زبان مگر سب سے بلیغ استاد ہے؛ ایک ایسا رفیق جو بیک وقت گواہ بھی ہے، ہمراز بھی اور رہنما بھی۔
زمانہ بدلا، نسلیں بدلیں، تمدن کے انداز بدل گئے، مگر کتاب کی اہمیت کم نہ ہوئی۔ وہ آج بھی اسی شان سے موجود ہے جس طرح قدیم کتب خانوں میں سنبھال کر رکھی گئی مخطوطات کی صورت میں موجود تھی۔ وہ آج بھی ہماری سوچوں کے افق کو وسعت دیتی ہے، ہمارے تخیل کو جِلا بخشتی ہے، اور ہماری خاموشیوں میں اپنی دانش کی روشنی سے بات کرتی ہے۔
لیکن افسوس کہ آج کا انسان تیز رفتار ترقی، ڈیجیٹل اسکرینوں، شارٹ ویڈیوز اور لمحاتی تسکین کے پیچھے بھاگتے ہوئے کتاب جیسے گہرے تعلق کو پس پشت ڈال چکا ہے۔ موبائل فون کی جگمگاتی دنیا نے انسان کے ہاتھ سے کتاب کا لمس چھین لیا ہے، اور اس کے ذہن سے غور و فکر کا ذائقہ۔ آج کتابیں دکانوں کے کونوں میں پڑی گرد آلود ہو رہی ہیں، اور کتب خانے ویران ہو چکے ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب گھروں میں کتابوں کی الماریاں زینت ہوا کرتی تھیں۔ وہاں اشفاق احمد کی دانائی، بانو قدسیہ کی لطافت، منٹو کی سچائی، اور کرشن چندر کی انسانی ہمدردی بساکٹ کی شکل میں موجود ہوتی تھی۔ آج نہ وہ ذوقِ مطالعہ رہا، نہ وہ فکری شوق۔ گھروں میں اب صرف نصابی کتابیں پائی جاتی ہیں، اور وہ بھی صرف امتحان کے دنوں میں کھولی جاتی ہیں۔
تعلیمی ادارے، جنہیں علم کا گہوارہ ہونا چاہیے تھا، آج رٹے کے مراکز بن چکے ہیں۔ طلبہ محض نمبروں کی دوڑ میں لگے ہیں۔ مطالعہ کی محبت، علم کی خوشبو اور تحقیق کی جستجو ناپید ہو چکی ہے۔ والدین جو کبھی بچوں کو عید پر کتابیں تحفے میں دیا کرتے تھے، اب ان کے ہاتھ میں ٹیبلیٹ تھما دیتے ہیں۔
کتابوں کے عالمی دن کا تقاضا ہے کہ ہم صرف اس دن کو منانے تک محدود نہ رہیں، بلکہ کتابوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔ ہر تعلیمی ادارے میں ہفتے کا ایک دن مطالعے کے لیے مختص ہونا چاہیے۔ ہر بستی میں ایک فعال لائبریری ہونی چاہیے جو صرف کتابیں رکھنے کی جگہ نہ ہو، بلکہ گفتگو، تحقیق اور بصیرت کے چراغ جلانے کی جگہ ہو۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ کتابوں کو “خبروں” کی طرح اہم سمجھے اور ان کی تشہیر ایسے کرے جیسے کسی فلم یا کھیل کی جاتی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہر شخص، چاہے وہ والدین ہوں، اساتذہ ہوں یا سماجی کارکن، نئی نسل کو کتاب سے رشتہ جوڑنے کی ترغیب دے۔
کتاب صرف ماضی کی گواہی نہیں، حال کی روشنی اور مستقبل کی امید بھی ہے۔ وہ صدیوں کی سچائیاں اپنے صفحوں میں چھپائے، ایک نئے قاری کی منتظر رہتی ہے۔ اسے کھولیے، پڑھیے، محسوس کیجیے… کیونکہ کتاب سے جُڑنے کا مطلب ہے، انسانیت سے جُڑنا، شعور سے جُڑنا، تہذیب سے جُڑنا۔
جو قومیں کتاب کو فراموش کر دیتی ہیں، وہ تاریخ کے حاشیے پر درج ہو جاتی ہیں۔ اور جو اسے سینے سے لگا لیتی ہیں، وہ تاریخ کے مرکزی صفحے پر اپنا نام رقم کر دیتی ہیں۔