ضلع کورنگی کی مایوس عوام اور زمہ داران کا کردار

تحریر محمد عبید الله میرانی

آج ہمارے سندھ کے دارالحکومت، سندھ کے دل، کراچی کا نام عالمی سطح پر ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ ہاں یہ ایک الگ بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت، سندھ حکومت، ایم کیو ایم قوم پرست سرداروں، نوابوں، جاگیردار حکمران طاقت اور مافیا کی مدد سے ہمارے شہر کراچی کو ناقابل رسائی لوگوں سے چھین کر اسے اپنے قبضے میں لے لیا اور لوٹ مار کی اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کرکے بیچ دیا۔ اور ہمارے اس شہر میں ذات پات، رنگ و نسل کی بنیاد پر سیاست کر کے خود انتہا پسندی کی حدیں پار کردی آج میں اسی طرح کراچی کے ضلع کی بات کر رہا ہوں جو کہ سندھ کے دل کراچی کا عکس ہے۔ وہ ضلع کورنگی کے نام سے مشہور ہے۔ جی ہاں، میں ضلع کورنگی کی بات کر رہا ہوں جو کراچی کے ساتھ ساتھ قومی اور عالمی سطح پر ایک منفرد معیار کا حامل ہے۔ کورنگی صلع کراچی کا مرکز بنیاد ہے یوں کہ لیں کے یہ ضلع جسم کا وہ حصہ ہے جس کے بغیر جسم بے کار اور ناکارہ ہے۔ یہ ضلع پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے 2013 میں قائم کیا تھا۔ ضلع کی تشکیل سے پہلے اس علاقے کی حالت تاریخ کے اوراق میں لکھی جائے گی۔ ضلع کورنگی کے وجود میں آنے سے پہلے ایم کیو ایم اور مذہبی جماعتوں کا دور تھا۔ وہ دور آج بھی ذہن میں آتا ہے تو رونٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ایم کیو ایم اور مذہبی جماعتوں کی دہشت اس قدر عام تھی کہ پولیس، ریاستی ادارے کے افسران اور دیگر افراد ان کے پاس جانے کی جرأت نہیں کرتے تھے۔ کورنگی، چکرا گوٹھ، مہران ٹاؤن، ناصر جمپ، بلال کالونی کے علاقوں میں نظر پھلانے پر ،زندہ لوگوں کے بجائے مردہ لاشیں نظر آتی تھی۔ اور غروب آفتاب کے بعد لوگ خوف کے مارے گھروں سے باہر نکلنے کی ہمت نہیں کرتے تھے۔ ایم کیو ایم اور دہشت گردی پھیلانے والی مذہبی جماعتوں کے زوال کے بعد سندھ حکومت نے اس کا نام کورنگی رکھ دیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس ضلع میں نئے قوانین اور آئین کا نفاذ کیا گیا تاکہ یہ ضلع سرسبز و شاداب ہو اور خوفزدہ لوگ دوبارہ امن سے رہ سکیں۔ لیکن یہ محض ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ ہاں یہ سچ ہے کے۔ ضلع بننے کے بعد کچھ ترقیاتی کام ہوئے ہیں لیکن اس ضلع کا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا ہے۔ اس وقت اس ضلع میں سات ہزار سے زائد ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں جن میں سے کئی غیر قانونی اور کافی غیر رجسٹرڈ ہیں اور ان کے اندر ٹھیکہ کا نظام قائم کرکے عوام کو لوٹا گیا ہے۔ اس ضلع میں کاٹی ایسوسی ایشن آف تھریڈز کا دفتر ہے لیکن کاٹی نے عوام کو کوئی اچھا ریلیف نہیں دیا۔ بلکہ حکومت کے ساتھ مل کر عوام کو مزید تنگ کیا ہے۔ آج بھی ہزاروں بے روزگار نوجوان مرد و خواتین نوکریوں کے لیے پریشان ہیں۔ ایک طرف حکومت عوام کو لوٹ رہی ہے تو دوسری طرف KATi جیسے ادارے جو کو کمپنیاں چلانے والے ہیں وہ عوام کو لوٹ رہے ہیں اور سیاستدان سفارش پر اپنے من پسند افراد کو بھرتی کراتے ہیں۔ اور KATi نے  لوگوں کو ٹھیکے پر ڈیوٹی دینا کا قانون قائم کیا ہے جس وجہ سے ایک مزدور کا گھرولو نظام چلانا دوشار ہے ایک وجہ سے ایک غریب مزدور ایک وقت کا کھانا کھاتا ہے، تق دوسرے ٹائم وہ ہوٹلوں پر جاکے  پانی پی کے گزارتا اور رات اپنے بچوں کو پاکستان کی آزادی کے اچھے گیت سناکے سلا دیتا ہے ، کاٹی والوں آپ کے ایسے ناکارے نظام پر کوئی آپ کو تو کوئی پریشان یا دوشواری کا سامان نہیں ہوتا لیکن ایک غریب آدمی کو ان ناکارا اور ما پسند اور سفارشی نظاموں کہ وجہ سے کتنی پریشانی جھیلنی پڑتی ہے   آپ عیاش پرستوں کو تو یقینن کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اللہ سب سے حصاب لینے والا ہے خیر یہ تو اللہ کے سپرد ۔ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ بات یہیں سے شروع ہوتی ہے۔ اب آتے ہیں یہاں کے پولیس کے منفی نظام کی طرف جو کورنگی میں منشیات فروشی، بچوں سے زیادتی اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ کورنگی پولیس تو سندھ پولیس کو بھی نیلام کرچکی ہے لیکن پھر بھی ہمارے آئی جی ایڈیشنل آئی جی کراچی چیف خاموش ہیں۔ آج کورنگی پولیس نے کورنگی کو منشیات کا گڑھ اور جسم فروشی کا مرکز بنا رکھا ہے۔ یہ نظام کورنگی ضلع کے قیام کے بعد سے رائج ہے۔ اس ضلع کو بنے ہوئے 13 سال ہوچکے ہیں لیکن اس ضلع میں ماضی کا کالا قانون نافذ ہے لیکن اب فرق یہ ہے کہ سب چھپ کر کام کررہے ہیں۔ کورنگی ضلع میں 10 تھانے ہیں جن میں تھانہ زمان ٹاؤن، تھانہ سعود آباد، تھانہ شاہ فیصل شامل ہیں۔ ماڈیولر تھانہ۔ لانڈھی تھانہ کورنگی انڈسٹریل ایریا تھانہ۔ اس ضلع میں کوکرا پار پولیس اسٹیشن، الفلاح پولیس اسٹیشن اور عوامی کالونی پولیس اسٹیشن بھی ہیں۔ یہ ضلع دس تھانے رکھنے کے باوجود یہاں کی پولیس امن و امان بحال کرنے میں ناکام رہی ہے۔ انہوں نے تمام عوامی خدمات کو ترک کر کے مافیا جیسی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں۔ اس کے پیچھے ضلع کے ایس ایس پی کا کردار ہوتا ہے یا وہ اس سے لاعلم ہے۔ یہ نظام آج سے نہیں بلکہ ضلع کے وجود میں آنے کے بعد سے رائج ہے۔ لیکن اس کے باوجود پولیس فورس اپنے آپ کو بہتر نہیں کر سکی میں پھر بھی پولیس ڈیپارٹمنٹ کو گزارش کرتا ہوں اسی معیشتی ضلع کی پولیس کا نظام بھتر کروائیں تاکہ سندھ پولیس جا نام آلودہ ہونے سے بچ جائے خیر اب آتے ہیں کورنگی کے اہم ادارے ڈپٹی کمشنر کورنگی کی طرف۔ ڈپٹی کمشنر کورنگی کا پہلا تعارف یہ ہے کہ کورنگی نمبر ڈھائی پر جو ڈی سی آفس ہے وہ خود ہی قبضہ کا ہے ۔ جس کا اپنا دفتر قبضے کا ہو اسے دوسروں کے قبضے کیا بچائے گا لیکن ان 13 سالوڻ میں جب سے ضلع بنا

Comments (0)
Add Comment