امید ، خدمت اور انسانیت

منشاقاضی حسبِ منشا

مصیبت زدوں کا واحد سہارا امید ہے ، امید زندگی کا لنگر ہے اس کا سہارا چھوڑ دینے سے انسان کی کوششیں گہرے پانی میں ڈوب جاتی ہیں زندگی کے سفر میں اگر امید کے پھول نہ ہوں تو زندگی بے معنی سی ہو جائے امید ہی تو زندگی کے دکھوں کی تاریکی میں چاند کی مانند روشنی ہے جس کے پاس صحت ہے اس کی امیدیں بھی زندہ ہیں اور جس کے پاس امید ہے اس کے پاس سب کچھ ہے یہ عرب کہاوت ہے اور انگریزی کہاوت جو ہے وہ بھی سن لیں بہترین امیدوں کے ساتھ کام سرانجام دینا چاہیے اور ساتھ کسی ناگوار ترین نتیجے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے ہمیں امید اور توقعات میں فرق کو ضرور سمجھ لینا چاہیے حقیقی مفلس وہی ہے جس کی امیدیں بھی مر جائیں، امیدوں کا ختم ہو جانا موت کی علامت ہے امید زندگی آس و امید کے بعد خدمت عبادت کا درجہ رکھتی ہے ، عبادت کی قضا ہے خدمت کی نہیں ہے ، جو لوگ عرصہ ء خدمت میں ہیں وہ ان عبادت گزاروں سے بہت آگے ہیں جو رات بھر عبادت کرتے ہیں اللہ تک پہنچنے کے لیے انسانوں کے دلوں سے گزر کر جانا پڑتا ہے، انسانیت دوستی یہی ہے کہ کسی ارفع و اعلیٰ مقصد کے لیے بھی کبھی کسی انسان کو قربان نہ کرو ہر انسان کا دل انسانی دل ہوتا ہے انسانی ہمدردی خدا کی دین ہے ہماری اصل قومیت نسل انسانی کی قومیت ہے قبیلوں اور برادریوں میں بٹے ہوئے لوگوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ سب ہیں تو ایک ہی نسل انسانی سے جب تک ہم میں بنی نوع انسان کی خوبیاں پیدا نہیں ہوتی اس وقت تک حقیقی انسانی سماج کی تشکیل محال ہے میں اپنی مادر وطن کو اپنے خاندان سے زیادہ چاہتا ہوں لیکن نسل انسانی کے لئیے میری محبت اپنی مادر وطن سے بھی زیادہ شدید ہے انسانیت کی خدمت سے بے نیاز رہنا ہر قسم کے بندھنوں سے آزاد ہونا ہے بیکار ہے وہ انسان جس میں انسانیت نہ ہو جس شخص میں انسانیت نہیں اس کا کوئی مذہب نہیں ، خدا نے ہمیں انسان کی شکل میں پیدا کیا ہے تو کیوں نہ ہم انسان بن جائیں اور انسانی رشتوں کا احترام کرتے ہوئے انسانیت کی خدمت کریں ، اس دنیا میں وہ لوگ بڑے خوش نصیب ہیں جو امید خدمت اور انسانیت کے ساتھ اپنی زندگی بڑی خوبی سے گزار رہے ہیں اور یہ سلیقہ خدمت انسانیت کے بطن سے پیدا ہوتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ وہ لوگ بڑے خوش نصیب ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اس خاص مقصد کے لیے چن لیا ہے ، میں ممنون احسان ہوں جناب حاجی شفقت علی صاحب کا جنہوں نے آج ہمیں ایک مثبت سوچ رکھنے والے مسیحا ڈاکٹر فاروق بلوچ کے خیال کو پیکر محسوس میں ڈھلا ہوا دکھا دیا ہے HAM فاؤنڈیشن لاہور میں اسٹیٹ آف دی آرٹ ڈائیلسز اینڈ میڈیکل سنٹر قائم کر دیا ہے جہاں جدید مشینوں پر ماہر ڈاکٹرز کی زیر نگرانی غریب مریضوں کے نہ صرف مفت ڈائیلسز کیئے جا رہے ہیں بلکہ مریضوں کا مفت چیک اَپ ، لیبارٹری ٹیسٹ اور مفت ادویات بھی فراہم کی جا رہی ہیں اس کے ساتھ لوگوں میں اس مرض سے بچاؤ کی آگاہی بھی دی جا رہی ہے تاکہ اس موذی مرض سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کیا جا سکے یہ سب مخیر حضرات کے تعاون سے ممکن ہو سکا ہے HAM فاؤنڈیشن نے شرقپور شریف میں 200 بستروں پر مشتمل جدید ترین ہسپتال کی تعمیر مکمل کر لی ہے ان کا مقصد پسماندہ علاقوں میں رہائش پذیر غریب لوگوں کو مفت طبی سہولیات میسر کرنا ہے 200 بستروں پر مشتمل HAM ہسپتال میں غریب مریضوں کے علاج لیبارٹری ٹیسٹ اور مفت ادویات فراہم کی جائیں گی ماہر امراض عمومی ڈاکٹر فاروق بلوچ کی زیر نگرانی ہسپتال میں تمام بیماریوں کا مفت علاج کیا جائے گا انشاءاللہ HAM ہسپتال میں او پی ڈی سروسز کا جلد آغاز کیا جا رہا ہے جناب ڈاکٹر فاروق بلوچ کی مثبت سوچ کے بطن سے کتنا ہی خوشحال ماحول تشکیل پا رہا ہے انہوں نے مخیر حضرات سے درد مندانہ استدعا کی ھے کہ وہ اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے وہ نہ صرف ہمارے ہاتھ مضبوط کریں بلکہ ہمارے پاؤں بھی مضبوط کریں کیونکہ پاؤں کی مضبوطی کا تعلق ثبات قلب سے ہے جناب حاجی شفقت علی کے والد گرامی جناب حاجی عاشق حسین شرقپور شریف اور ڈاکٹر فاروق بلوچ کے والد گرامی حاجی عبد المجید کی طرح آپ بھی اپنے والدین یا کسی بھی اپنے پیارے کے نام کمرہ ، وارڈ، بلاک یا کوئی بھی مشینری منسوب کرا سکتے ہیں جو کہ ان کے لئیے صدقہ جاریہ ہوگی ، آپ ہمیشہ زندہ رہ سکتے ہیں غالب نے تو آپ کو ھزار سال زندہ رہنے کی دعا دی تھی کہ

تم سلامت رہو ہزار برس

ہر برس کے دن ہوں پچاس ہزار

لیکن میں تمہیں ہمیشہ زندہ رہنے کا راز بتا رہا ہوں اور وہ راز ڈاکٹر وقار احمد نیاز چیئرمین رحمٰن فاؤنڈیشن ، ڈاکٹر آصف محمود جاہ کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی اور HAM فاؤنڈیشن کے ڈاکٹر فاروق بلوچ اور حاجی شفقت علی آف شرقپور شریف نے پا لیا ہے ، حاجی شفقت علی جنہوں نے HAM فاؤنڈیشن کے لئیے جناح ہسپتال کے میڈیکل ماحول میں خوبصورت عمارت دی ہوئی ہے ، یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے انسانی حافظوں سے محو نہیں ہونا ہے اور بقول محسن نقوی کے ،

عمر اتنی تو عطا ہو میرے فن کو خالق
میرا دشمن میرے مرنے کی خبر کو تر سے

Comments (0)
Add Comment