*امریکی عوام کا مینڈیٹ بمقابلہ ٹرمپ کا عالمی ایجنڈا !*

فاروق انجم بٹہ

بظاہر ڈونلڈ ٹرمپ جنگوں کے خاتمے کے منصوبوں کے دوش پر وائٹ ہاؤس پہنچے ہیں لیکن عملی طور پر دیکھا جائے تو وہ پورے جنگجویانہ انداز کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں جلوہ افروز ہیں۔ ان کا لہجہ اور انداز مروج سفارتی آداب اور طریقہ کار سے ماورا ہے۔ وہ اس محاورے پر یقین کیے بیٹھے ہیں کہ شیر جنگل کا بادشاہ ہوتا ہے اس لیے اس کی مرضی ہے کہ وہ انڈے دے یا بچے۔ اس لیے ہر روز ان کی طرف سے سات آٹھ ارب انسانوں کے اس جنگل میں نئی دھاڑ سامنے آ رہی ہے۔

ہو سکتا ہے اپنی اس خواہش سے مغلوب ہو کر مشرق وسطیٰ میں صدر ٹرمپ جہنم کی اسی آگ کو بھڑکانے میں کامیاب ہو جائیں جس کی وہ صدارت کا حلف اٹھانے سے پہلے دھمکی دے چکے ہیں۔ لیکن باور رہے کہ آگ جہنم کی ہو تو اس کا دائرہ لاس اینجلس کی دنیاوی آگ سے زیادہ خوفناک ہو گا اور اس کی گرمی اور شدت طوفان الاقصیٰ کی آگ سے زیادہ خوفناک ہوگی جس کے آگے کسی کا بھی ٹھہر سکنا آسان نہ رہے گا۔

اس لیے غزہ میں پڑے ملبے سے بھی پہلے غزہ کے فلسطینیوں کو نکال کر مصر اور اردن یا کسی اور ملک میں پھینک دینے کا منصوبہ پیش کرنا کافی بڑا اور ہولناک اقدام ہو گا۔ ٹرمپ کی اس سوچ کا اگر مصر اور اردن کے نقطہ نظر سے جائزہ لیا جائے تو یہ منصوبہ خود ڈونلڈ ٹرمپ کی ‘امیگرینٹس’ کے بارے میں تسلسل رکھنے والی سوچ اور پالیسی سے سخت متصادم ہے۔ گویا وہ اپنے ملک کے لیے کچھ سوچتے ہیں اور دوسرے ملکوں کے لیے کچھ اور سوچتے ہیں۔

بلاشبہ امریکہ طاقتور ملک کے طور پر عالمی سطح پر ورلڈ آرڈر ڈکٹیٹ کراتا رہا ہے۔ لیکن اس کے پیش کردہ ورلڈ آرڈر کے سارے نفع و نقصان اور حسن و قبح سے صرف دنیا کے لوگ ہی نہیں خود امریکی اتحادی، یورپی ممالک اور امریکہ کے اپنے عوام خاص طور پر نئی امریکی نسل بھی اچھی طرح شناور ہو چکی ہے۔ حتیٰ کہ مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک بھی اب بیک زبان امریکی منصوبے پر پکار پکار کر کہہ رہے ہیں ‘ہم سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ۔’ اس سلسلے میں عرب وزرائے خارجہ کا حالیہ مشترکہ بیان بڑا واضح اور دوٹوک ہے۔

غزہ سے دس لاکھ فلسطینیوں کو نکالنے کا یہ منصوبہ انتہائی ‘چیلنجنگ’ ہو سکتا ہے کہ اسرائیل ساڑھے پندرہ ماہ کی اپنی تمام تر جنگی قہر سامانیوں اور امریکہ، برطانیہ اور فرانس جیسے اتحادیوں کی جنگ جاری رکھنے کے لیے اسرائیل پر تمام تر مہربانیوں کے باوجود فلسطینیوں کو غزہ سے نہیں نکال سکا۔

حد یہ کہ اپنے ایک سو کے لگ بھگ قیدیوں کو بھی غزہ سے نکال لے جانے میں اسرائیلی فوج کامیاب نہیں ہو سکی۔ اگرچہ اسرائیل نے اس کے لیے اس قدر بھاری قیمت ادا کی ہے کہ امریکہ میں بطور مہمان خاص پہنچنے والے نیتن یاہو کو بین الاقوامی فوجداری عدالت سے ایک جنگی جرائم میں ملوث ملزم کا درجہ دلوا لیا ہے۔

اسرائیلی معیشت کی چولیں ہل گئی ہیں۔ دنیا بھر سے آئے ہوئے اسرائیل میں رنگ برنگے یہودیوں کو بھی یہ سوچنے پر مجبور ہونا پڑا ہے کہ اسرائیل امن سے رہنے کی جگہ نہیں ہے۔ اسرائیلی صنعتوں اور خصوصاً مصنوعات کی فروخت کو اس پندرہ ماہ کی جنگ نے بری طرح متاثر کیا ہے اور تو اور خود اسرائیل کی فوجی اہلیت اور دفاعی صلاحیتوں کا بھرم بھی تہس نہس ہو کر رہ گیا ہے۔ رہی سہی کسر اسرائیلی آرمی چیف جنرل ہرزی ہیلوی کے استعفے نے اپنی ناکامی کا اعتراف کر کے پوری کر دی ہے۔

اس لیے خواب دیکھنے کا حق اپنی جگہ مگر ڈونلڈ ٹرمپ جنہیں امریکی ووٹرز نے خوب عزت کے ساتھ منصب صدارت دوبارہ سونپا ہے. ان کے لیے بڑا مشکل ہوگا کہ وہ اپنے ہی انتخابی دعوے کے برعکس دنیا میں جنگوں کی آگ بھڑکانے کے کام میں لگ جائیں۔ بلاشبہ یہ کام امریکہ کے لیے کئی برسوں تک ممکن رہا ہے لیکن اب حالات میں بدلاؤ ہے۔ روس کروٹ بدل چکا ہے، چین نے اپنی شناخت تبدیل کر لی ہے۔ دنیا کے دیگر حصوں میں بھی نئی انگڑائیاں لی جا رہی ہیں۔ افغانستان سے امریکہ کی واپسی کو ابھی صرف ڈھائی سال گزرے ہیں۔ ایسے میں کوئی نئی جنگ قطعاً امریکہ کے لیے مفید نہیں ہو سکتی۔

خصوصاً ان حالات میں جب ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کی انتظامی مشینری کو خود بھی لاس اینجلس میں لگنے والی حالیہ قدرتی آگ کے دوران سخت تنقید کا نشانہ بنا کر نااہلیت کا تمغہ دے چکے ہیں۔ اپنے ہی ملک کی سٹیبلشمنٹ کو کرپٹ قرار دے چکے ہیں۔ اس لیے کوئی نیا اور پہلے سے زیادہ بوجھ اٹھا کر وہ امریکہ، امریکی ورلڈ آرڈر، امریکی معیشت اور خود اپنی پیرانہ سالی کے لیے مشکل پیدا کریں گے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکہ اور اپنی پیرانہ سالی کے زمانے میں دور شباب کے فیصلوں اور غلطیوں سے گریز کرنے کی ضرورت ہے۔ وقت کی رفتار بدل رہی ہے۔ اس لیے امریکی دورے پر آنے والے نیتن یاہو کو بھی باور کرانے کی ضرورت ہے کہ اپنی سیاست بچانے کے لیے اسرائیل اور امریکہ ہی نہیں پوری دنیا کو ایک نئی آگ میں جھونکنے کے بجائے پندرہ ماہ کی ہلا دینے والی جنگ کے بعد اپنی عوام کو اسرائیل اور اسرائیل سے باہر سکھ کا سانس لینے کی اجازت دیں۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو کی منگل کے روز کی ملاقات میں غزہ سے فلسطینیوں کے جبری انخلاء اور غزہ میں از سر نو اسرائیلی جنگ کے اجراء کرنے پر اتفاق ہوگیا تو اس سے کوئی ریاست، سیاست، معیشت اور حکومت تو کیا وزارت، بادشاہت اور صدارت بھی محفوظ نہ رہ سکے گی۔

نئی حقیقتوں کو تسلیم کر لینا اور پرانی ہٹ دھرمی کو چھوڑ دینا ہمیشہ انسانوں اور انسانی معاشروں کے لیے مفید ثابت ہوتا رہا ہے۔ پندرہ ماہ کی جنگ نے دنیا کو بہت سارے نئے حقائق سے روشناس کرایا ہے۔ پرانی گھڑی گھڑائی کہانیاں طشت از بام ہو گئی ہیں۔ غزہ سے رہائی پانے والی اسرائیلی قیدی خواتین کے

Comments (0)
Add Comment