آج کل وطن عزیز میں نوجوانوں کے سر پر بیرون ملک جانے کا جنون سوار ہے میرا خیال ہے کہ انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم بیرون ملک جائیں گے ڈالر، یورو،پونڈ ، درہم، دینار اور ریال درختوں پر لگے ہوئے ہیں انہیں توڑیں گے اور راتوں رات امیر ہو جائیں گے جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے میں نے زندگی میں بہت سے ممالک پھیرے ہیں باہر کی زندگی ہر لحاظ سے پاکستان کی نسبت مشکل ہے وہاں محنت زیادہ کرنی پڑتی ہے جبکہ اس کا معاوضہ کم ملتا ہے اس کے برعکس اگر آپ اپنے اوپر سے انا کی چادر اتار دیں تو وطن عزیز میں زیادہ پیسے کمائے جا سکتے ہیں
آ ج کل کی نوجوان نسل اپنے ماں باپ کو اتنا تنگ کرتے ہیں کہ ان کے پاس انہیں باہر بھیجنے کے پیسے نہ بھی ہوں تو وہ بیچارے زمین مکان بیچ کر یا کہیں سے قرض اٹھا کر انہیں باہر بھیجنے کی کوشش کرتے ہیں اور انہیں حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایجنٹ انہیں اپنے قریب کر لیتے ہیں انہیں خوبصورت مستقبل کے سہانے خواب دیکھا کر انہیں سچی جھوٹی کہانیاں سنا کر اپنے پھندے میں پھانس لیتے ہیں گزشتہ ماہ آ پ نے کشتی حادثے کے بارے میں تو سنا ہوگا ایسے حادثات اکثر ہو جاتے ہیں بہت سے حادثات کو میڈیا پر نہیں آتے اب آپ خود حساب لگائیں کہ لوگ ساٹھ ستر لاکھ روپے ایجنٹوں کو دے کر اپنے بچوں کو غیر قانونی طریقے سے باہر بھیجتے ہیں بلکہ غلط نہیں ہوگا اگر کہہ لیا جائے کہ موت کے حوالے کر دیتے ہیں فرض کریں کہ ان میں سے کچھ اگر بغیر ویزے کے باہر چلے بھی جائیں تب بھی ان کی زندگی آسان نہیں ہوگی میں نے بہت سے ایسے لڑکوں کو دیکھا ہے جو غیر قانونی طریقے سے باہر گئے یا پھر وزٹ ویزا پر گئے اور اوور سٹے ہو کر غیر قانونی ہو گئے وہ ایک وقت کی روٹی کے لیے پریشان بیٹھے ہوتے ہیں پہلی بات تو انہیں کوئی نوکری نہیں دیتا اگر مل بھی جائے تو ان کی تنخواہ آدھی سے بھی کم ہوتی ہے اگر انہیں ہفتہ دس دن کے لیے کام مل بھی جائے تو بھی باقی دن فارغ رہتے ہیں یعنی جو ابتدائی دس دنوں میں کمایا ہوتا ہے وہ باقی دنوں میں فارغ بیٹھ کر کھا لیتے ہیں یعنی جتنی دیر بھی یہ باہر رہتے ہیں پریشان رہتے ہیں اور ادھر ماں باپ ان کے پیسے بھیجنے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں
اس لیے میں اپنے نوجوانوں سے گزارش کروں گا کہ غیر قانونی طریقے سے ہرگز ہرگز باہر نہ جائیں اور اگر آپ قانونی حیثیت سے لیکن لیبر کلاس میں باہر جانا چاہتے ہیں اپنے خوابوں کو پورا کرنا چاہتے ہیں تو بھی میں یہی گزارش کروں گا کہ ایسا ہرگز نہ کریں سعودی عرب، دبئی، مسقط ، قطر ،بحرین، کویت ، ترکی ،ملائشیا، تھائی لینڈ، انڈونیشیا ،سنگاپور وغیرہ میں اگر آپ بغیر کسی ہنر کے جانا چاہتے ہیں تو آپ کی حیثیت کوئی نہیں ہوگی وہاں لیبر بہت برے حالات میں گزارا کرتی ہے اگر اب بھی بیرون ملک میں ہی رزق کمانے کمانا چاہتے ہیں تو میں گزارش کروں گا کہ پہلے پاکستان میں رہتے ہوئے کوئی نہ کوئی ہنر سیکھ لیں الیکٹریشن، پلمبر، سٹیل فکسر، سیفٹی آفیسر، کرین آپریٹر، ایکسیویٹر
آپریٹر ،شیول آپریٹر، پروجیکٹ سپروائزر، اکاؤنٹنٹ ان میں سے کوئی ایک کورس کر لیں تو آپ کو اچھی تنخواہوں پر باہر جانے کا موقع مل سکتا ہے اور اگر آپ آزاد ویزا لے کر باہر جانا چاہتے ہیں تو آپ موبائل ریپیئرنگ، لیپ ٹاپ ریپیئرنگ، اے سی سروس، جینیٹوریل سروس، شیف، ہوٹل مینجمنٹ، ٹور آپریٹر ،ویٹر، پیٹرول سٹیشن مینیجر، سٹور مینجر، ایکس رے، الٹراساؤنڈ، میل نرس یا اس کے برابر کا کوئی کورس کر لیں پھر کمپنیاں آپ کو نوکری بھی دیں گی اور اچھی مراعات بھی
اگر آپ کے پاس ان میں سے کوئی ایک ڈپلومہ موجود ہے تو مختلف کمپنیوں کی ڈیمانڈ جاننے کے لیے اخبارات دیکھتے رہیں بعض اوقات بہت سی کمپنیاں ٹکٹ ویزا رہائش میڈیکل کے ساتھ مفت میں لے جاتی ہیں آپ کو پورا حق حاصل ہے کہ بڑے خواب دیکھیں ان خوابوں کو پورا کرنے کے لیے دن رات محنت کریں لیکن کبھی بھی کوئی ایسا خواب نہ دیکھیں جس کو پورا کرنے کے لیےآپ کو زندگی داؤ پر لگانی پڑے اب وہ وقت گزر چکا ہے جب لوگ غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک جاتے تھے اور کیس وغیرہ کر کے تین چار سالوں میں ویزا حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے تھے کرونا کے بعد حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں اب اگر آپ کسی نہ کسی طرح غیر قانونی طریقے سے کسی ملک میں داخل ہو بھی جاتے ہیں تب بھی آپ خطرے میں ہیں کیونکہ جب بھی پکڑے گئے قید و بند کی مشکلات بھی برداشت کرنا پڑیں گی اور ڈیپورٹ بھی کر دیا جائے گا اب سوچیں کہ آ پ کے والدین نے آپ کی ضد کو پورا کرنے کے لیے جو رقم بطور قر ض لی تھی اس کا کیا بنے گا اگر خدانخواستہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تو آپ کے والدین جیتے جی مر جائیں گے اس لیے برائے کرم ان کو بڑھاپے میں کوئی ایسا دکھ نہ دیں کہ سوائے پچھتاوے کے ان کے پاس کچھ نہ ہو