خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے

منشاقاضی حسب منشا

ارسطو نے ایک غیر تعلیم یافتہ حسین و جمیل بچے کو دیکھ کر کہا تھا کہ گھر تو خوبصورت ہے لیکن صاحب خانہ موجود نہیں ہے ، مجھے آج وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں وفاق ایوان ہائے تجارت و صنعت کی خوبصورت عمارت میں اقبال اور کشمیر انٹرنیشنل کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا ، تو مجھے اس حسین و جمیل اور دلکش پلازہ میں صاحب خانہ کی موجودگی نے آسودگی کا ماحول پیدا کر دیا ۔ گھر بھی خوبصورت تھا اور صاحب خانہ بھی موجود ، کتاب کا دیباچہ آپ پڑھ لیں تو سمجھو پوری کتاب کا مفہوم سمجھا جا سکتا ہے ، کتاب کا دیباچہ خوش اخلاق سیکرٹری وفاق ایوان ہائے تجارت و صنعت اسلام آباد جناب عمر ھاشمی کی صورت میں پڑھا اور پوری کتاب کا مفہوم آئینہ ء ادراک پر رنگ و نور کی طرح رقصاں ہو گیا ۔ عمر ھاشمی کے انکسار میں افتخار اور ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے میں کانفرنس کے بارے میں چشم دید روداد رقم کر رہا ہوں ۔ کاش ہمارے سرکاری نیم سرکاری اور نجی کاروباری آرگنائزیشنوں ، تنظیموں کے میر کارواں کی معیت میں ایسا ہی ماحول موجود ہو ۔ عمر ھاشمی کی عمر میں برکت ہو وہ زندگی گزار رہے ہیں ، عمر تو سو کر گزر جاتی ہے اور زندگی جاگ کر گزاری جاتی ہے ، اب آ جائیں کانفرنس کے صدارتی کلمات سے لیکر مہمانوں کے اظہار خیال تک جن کے خیالات و جذبات نے سامعین کے دلوں میں فکر اقبال کے افکار و نظریات کی قندیلیں فروزاں کر دیں ۔ گو اپنا بیان حسن طبیعت نہیں مجھے ، دنیا میں کوئی باپ اپنے بیٹے کو ایسی نصیحت کرتے آپ نے نہیں دیکھا ہوگا ، جو اپنے بیٹے کو یہ نصیحت کرئے کہ خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کر دے، ہم نے تو اپنے والدین کو یہی کہتے سنا ہے کہ خدا تجھے آتش فضا ماحول سے بچائے اور تجھے تتی ہوا بھی نہ لگے ، لیکن یہاں شاعر مشرق اپنے فرزند کو طوفان آشنا کرنا چاہتے ہیں ، وہ طوفانوں سے ٹکرائے اور طوفان کشمکش میں زندگی کو تلاش کرئے ، زندگی بھنور میں ہے ، ساحل پر نہیں اور یہ حقیقت ہے کہ اضطراب بہت بڑی دولت ہے دوسرے مصرع میں وہ یہی کہتے ہیں کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں ہے

وفاق ایوان ہائے تجارت و صنعت اسلام آباد اور اقبال و رومی فورم کے زیر اہتمام میں نے اقبال اور کشمیر کے عنوان پر بین الاقوامی شہرت یافتہ تجزیہ نگار جناب مشاہد حسین سید کی گفتار میں جدت کردار کا تجزیاتی عکس اپنے آئینہ ء ادراک پر رقصاں محسوس کیا ، وہ دلائل و براہین سے آراستہ گفتگو کی جستجو میں سامعین کی آرزو جگا دیتے ہیں ، ان کی سماج میں متوازن شخصیت کے سبھی عبقری لوگ گرویدہ اور مشاہد حسین سید کو خوش نظری اور احترام کا سزاوار قرار دیتے ہیں ۔ مشاہد حسین سید کے والد گرامی کرنل امجد حسین سید اور حمید نظامی تحریک پاکستان کے ہراول دستے میں شمار ہوتے تھے جن پر شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کو بھر پور اعتماد تھا ، مشاہد حسین سید نے سامعین کی معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے بتایا کہ علامہ اقبال کا خط لے کر قائد تک پہنچانے والے حمید نظامی اور کرنل امجد حسین سید ہی تھے ، جنہوں نے 1937 میں حمید نظامی صاحب اور کرنل امجد حسین سید صاحب یہ علامہ اقبال کے پاس جاتے تھے تو یہ مایوس بھی تھے کہ دیکھیں گاندھی صاحب کا اور نہرو صاحب کا بڑا طوطی بولتا ہے تو اس طرح پھر علامہ اقبال نے ان سے کہا کہ منڈیو گرمی نہ کھاؤ پریشان نہ ہو، میں نے بندوبست کر لیا ہے اس صورت حال کو ٹھیک کرنے والے راہنما جنہیں علامہ اقبال نے پہلوان کہا تھا وہ جناح صاحب ہیں جو لندن سے بہت جلد ہندوستان آ رہے ہیں ، اچھا پھر انہیں دنوں پھر قائد اعظم جب وہ لاہور کسی کیس کے سلسلے میں فلیٹیز ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے اور ان کے سیکرٹری سے یہ دونوں لڑکے کرنل صاحب اور نظامی صاحب ان کے پاس پہنچ گئے اور ان کے سیکرٹری نے کہا کہ آپ کس حوالے سے ملنا چاہتے ہیں تو انہوں نے کہا ہمیں علامہ اقبال صاحب نے بھیجا ہے اجازت مل گئی ، تو قائد اعظم نے کہا ویلکم بوائز کیا بات ہے بتائیں تو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو اسلامیہ کالج مہمان خصوصی دعوت دینا چاہتے ہیں ، تو قائد اعظم نے کہا کہ آپ نے کیا اپنے پرنسپل سے اجازت لی ہے ؟ آپ پہلے ان سے اجازت لیں پھر ان دنوں بی اے قریشی صاحب پرنسپل تھے تو وہ پھر جناح صاحب کا نام سنتے ہیں جب انہوں نے کہا کہ بلانا چاہتے ہیں ان دونوں نے کہا ہاں ، تو غصے میں آ گئے کہا کہ تمہاری جرات کیسے ہوئی تو تم کالج میں جناح کو بلاؤ وہ تو ظاہر ہے کہ یہاں یونینسٹ کی حکومت تھی ، پنجاب بہرحال ان کو دونوں کو کالج سے نکال دیا گیا پھر علامہ اقبال کے کہنے پر ان دونوں کو بحال کیا گیا اور پھر یوں ہوا کہ یہ ان کو یہ جو لکھنؤ سیشن ہوا تھا ان دونوں کو وہاں پر بھیجا گیا لکھنؤ سیشن کے لیے علامہ اقبال کے کہنے پر اور جو غلام حسین صاحب تھے ڈپٹی سیکرٹری تھے وہ پنجاب مسلم لیگ کے انہوں نے کہا کہ جی یہ تھرڈ کلاس کا ٹکٹ ہے اپ دونوں وہاں چلے جائیں اور پھر دونوں نے پہلی مرتبہ اچکن میں جناب صاحب کو دیکھا تھا جناح کیپ انہوں نے پہنی ہوئی تھی تو یہ جو دونوں حضرات یہ سبجیکٹ کمیٹی کے ممبر بھی تھے اور یہ جو اجلاس ہے یہ راجہ صاحب محمود آباد کے گھر میں ہوا تھا جو بڑے تحریک پاکستان کے نامور آدمی تھے 23 مارچ 1940 میں کرنل صاحب وہ جو تاریخی پاکستان ریزولوشن تھا اپنے بھتیجے خالد حسین کو ساتھ لے کر گئے تھے اور وہاں پر مووی بنوائی تھی جو اپ دیکھتے ہیں قائد اعظم بھگی میں آ رہے

Comments (0)
Add Comment