دسمبر کے شروع ہوتے ہی شعرا حضرات لکھاری اپنے اپنے قلم ہجر کے قصے کہانیاں لکھنے لگتے ہیں دکھ بھری شاعری بچھڑ جانے کے قصے نہ ملنے کا روگ اور نجانے کیا کیا
مانا کہ یہ سال کا آخری مہینہ ہے اس کے دنوں کی گنتی ختم ہوتے ہی نئے سال کی گنتی شروع ہو جائے گی وہی دن رات وہی انسان وہی زندگی
پس یہ مہینہ اگلے سال آئے گا اس کا دکھ بیان کرنے سے لکھاری نہیں تھکتے
سوچنے کی بات تو یہ یہ کیا صرف اس مہینے کے ختم ہونے سے ہمارے سالوں پر فرق پڑے گا ۔کیا سارے سال میں یہی مہینہ ہے جس کا اختتام ہو جاتا ہے ۔۔۔۔
جب سے پیدا ہوئے ہیں کیا روزانہ صبح سے شام نہیں ہوتی روزانہ ایک دن ختم نہیں ہو جاتا
سوچیے یہ روزانہ کی گنتی گنتے گنتے ہم عمر کی کتنی سیڑھیاں چڑھتے ہیں کیا کبھی سوچا یہ جو ایک دن ہے اس کی ہماری زندگی میں کتنی اہمیت ہے یہ گزرتا ہوا دن ہمارا ماضی بن رہا ہے ہماری زندگی سے نکل رہا ہے کبھی واپس نہ آنے کے لیے ۔یہ گزرتا وقت ہمیں بتاتا ہے ہر نیاءدن ہمارا ماضی بن جائے گا اس دن کو ایسے گزریں کہ مستقبل اچھا بن سکے ماضی کا کوئ پچھتاوا ہمارے آنے والے دن کی آسانی میں رکاوٹ نہ بن پائے۔ ہم میں ایک بری عادت یہ بھی ہے ہم یا تو ماضی میں رہتے ہیں ماضی کو کوستے روتے افسوس کرتے
یا پھر خیالی پلاؤ مستقبلِ کے
آنے والے دنوں میں خوشیوں کی امید لگائے گزرتے ہوئے وقت کی قدر نہیں کرتے جب کہ یہ گزرتا ہوا وقت ہی اصلی سرمایہ ہے اصل اور حقیقت اگر ہم موجودہ وقت میں زندہ رہیں اس کو ڈھنگ سے گزاریں تو نہ ہمیں ماضی کی تلخیوں میں رونا پڑے نہ آنے والے کل کے لیے انتظار کرنا پڑے
ہماری خوشی ہمارا سکون آج میں ہے ہمارا آج اچھا ہے تو ہمارا ماضی پوسکون ہمارا مستقبل کیا ہے کوئ نہیں جانتا اور جس کو ہم جانتے ہی نہیں ہمارے بس میں ہی نہیں اس کے لیے پرشان کیوں ہوں ۔۔
یہ تو قانون فطرت ہے جو پیدا ہوتا ہے اس نے مرنا ہے
دسمبر ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے ہر لمحے نے وقت کا روپ لے کر دنوں مہینوں سالوں میں بدل جاتا ہے ہمیں پس یہ سوچنا ہے اور کرنا ہے کہ اپنے گزرتے پل کو کتنا خوبصورت بنانا ہے کیسے اسے یاد گار بنا سکتے ہیں کچھ دیر کے لیے غور کیجیئے اس موسم پر توجہ دیجیئے کیسے کیسے سر سبز گہرے درخت آخر کو زرد ہوتے پتوں کو روک نہیں پا رہے پتے لاکھ کوشش کے آخرکار درختوں کی شاخوں کو چھوڑ کر راستوں میں بکھر رہے ہیں اور درخت بےبسی کے ساتھ ان کو دیکھ رہا ہے ۔
اسی طرح ہماری زندگی ہے پیدا ہونے کے بعد مرنے کے لیے ہم جیتے رہتے ہیں ۔ہم اپنے پیدا ہونے کے مقصد کو جان ہی نہیں پاتے کہ ہم واپس جانے کے لیے زندہ ہیں تو کچھ واپسی کے سفر کے لیے تیاری کر لیں تاکہ دوسری دنیا میں ہم سر سبز رہیں
سوچیں تو گزرتے یہ لمحے ہمیں ہماری زندگی کا انجام سمجھاتے ہیں اور ہم بغیر سوچے سمجھے نجانے کس وقت کے آنے کی امدید لگاتے جہان فانی کو چھوڑ جاتے ہیں ۔دسمبر ہمیں بتاتا ہے زندگی ختم ہو جانی ہے یہ دنیا فانی ہے جو کچھ کر سکتے ہو ابھی کر لو ورنہ جانا تو ہے ہم کتنی بھی محنت کر لیں کتنی ہی کامیابی حاصل کر لیں جانا خالی ہاتھ ہی ہے ۔ان بظاہر خالی ہاتھوں کو نیک اعمال سے بھر لیجیئے جتنی نیکیاں جمع کر سکتے ہیں دونوں ہاتھوں سے جمع کر لیجیئے۔ نجانے کب ہمارا آخری وقت ہو درخت تو پہلے خزاں رسید ہوتے ہیں پھر اپنے پتوں سے جدا ہوتے ہیں لیکن ہمارا پیدا ہونا جینا مرنا کب کہاں کس جگہ ہے کچھ عمل نہیں تو زیادہ ڈر تو ہمیں ہونا چاہئے کہ نجانے کون سا دن ہمارے دسمبر کا آخری دن ہو
دسمبر بتاتا ہے سدا کے لیے کوئ موسم نہیں زندگی بھی موسموں کی طرح ہے کبھی ہمیں خوشیاں ملتی ہیں اور کبھی غم کبھی ہمیں کامیابی ملتی ہے کبھی ہمیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے لیکن ایک چیز جو ہمارے اور ان مہینوں میں مختلف ہے وہ محنت اور دعا
ہم محنت کر کہ عبادت کر کہ دعا مانگ کر اپنے لیے آسانیاں پیدا کر سکتے ہیں کیونکہ ہمیں الله تعالی نے عقل دی ہے شعور دیا ہے عمل دیا ہے۔اور ہتھیار کے طور پر عبادت اور دعا ہمیں تحفے میں ملے ہیں جن کے حصول کے لیے ہمیں محنت نہیں کرنی پڑتی ۔پس اپنی عقل قوت اور ثابت قدمی سے ہم اپنی یہ دنیا اور آخری آگاہ ابدی دنیا کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہیں پس ہمیں عمل خیر کی ضرورت ہے یہ عمل خیر ہمارے جسم میں کھاد کا کام کرتے ہیں ہمارے جسم کی مٹی کو طاقت بخشتے ہیں جتنے ہم نیک عمل کریں گے ہمارے دل کی مٹی اتنی ہی زیادہ زرخیز ہو گی ہمارے جسم پر روحانی طور پر سبزہ اگے گا ہماری نیت کے درختوں پر پھل لگے گا اور ہم اس دنیا اور اخرت میں فلاح پانے والوں میں ہو جائیں گے ۔ وقت کی گھڑی پکار پکار کر اپنی ٹک ٹک سے خبردار کر رہی ہے اے دسمبر کو رونےوالو اپنے گزرتے وقت پر رو لو اپنے گزرتے وقت کی آپباری کر لو اپنی نیت کی کھیتیوں کو ہموار کر لو اپنے اچھے اعمال کا ںیج ڈال لو یہ وقت گزر گیا تو ہو سکتا ہے باقی پچھتاوے ہی رہ جائیں گے