شفیق مراد کی شاعری میں صنعتوں کی جلوہ گری

تحریر : تمثیلہ لطیف

شعر کہنا فن ہے اور یہ ہر کہہ و مہہ کو نصیب نہیں ہوتا اس دور میں اچھا شعر کہنے والے خال خال ہیں اس لیے جب کوئی اچھا شعر نظروں کے سامنے آتا ہے یا سننے کا موقع ملتا ہے تو دل و نگاہ کو سکون مل جاتا ہے۔ شفیق مراد کا شمار ایسے ہی شعرا میں کیا جاتا ہے ۔ جن کے ہاں موضوعات کا تنوع بھی ہے اور اس سے بڑھ کر جو بات حیران کرتی ہے وہ ان کی شاعری میں مختلف صنعتوں کی جلوہ گری ہے جو کہ ان کے عمیق مطالعے اور گہرے مشاہدے کی بدولت ممکن ہوا ہے۔ شفیق مراد نے مختلف صنعتوں کا استعمال شعر میں کیا ہے اور یہ اتنا برمحل اور برجستہ ہے کہ شعر کا صوتی حسن ان کی بدولت بڑھ جاتا ہے۔ صنعت_تضاد میں شاعر شعر میں یا مصرعے میں دو ایسے الفاظ کا استعمال کرتا ہے جن کے معانی ایک دوسرے سے اُلٹ ہوتے ہیں۔ شفیق کی شاعری میں ایسی کئی مثالیں مل جاتی ہیں جن میں صنعت_تضاد استعمال کی گئی۔ یہ اشعار دیکھیے:

جس کے پانے کو میں کھاتا رہا جھوٹی قسمیں

سچی چاہت سے بھی اُس نے مجھے غافل رکھا

ظلمتوں کے دور میں بھیجی ہے گھر گھر روشنی

نفرتوں کے شہر میں ہم نے اگاۓ ہیں گلاب

چند لمحوں میں ہی دل کا رازداں بننے لگا

رات بھر کا ایک مہماں ، میزباں بننے لگا

عجب مشکل میں اب یہ داستاں ہے
زمیں نیچے نہ اوپر ، آسماں ہے

وہی اندیشہء سودو زیاں ہے

انہی پر پھر محبت کا گماں ہے

پاؤں جمتے ہی گۓ تیرے بدن پر میرے
زندگی !موت کی جانب جو پھسل کر دیکھا
شب_ہجراں بھی کٹ جاتی ، ملن کی آس بھی رہتی
مری جاں تیرے کوچے میں گھر لیتے تو اچھا تھا
تغافل نے ہمیں ہے دین کا رکھا نہ دنیا کا
کسی کا نام گر شام و سحر لیتے تو اچھا تھا
سنورنے اور بگڑنے میں بتا دی زندگی میں نے
کبھی کی بندگی میں نے کبھی کی عاشقی میں نے

ان اشعار میں صنعت_تضاد استعمال کی گئ ہے۔ جھوٹی، سچی، ظلمت، روشنی ، مہماں ، میزباں، زمیں ، آسماں ، سود ، زیاں، زندگی، موت، ہجر، ملن، دین ، دنیا، شام ، سحر، سنورنے ، بگڑنے
ان تمام الفاظ کو دیکھیے جو شفیق نے استعمال کیے ہیں ۔ ان سے کیسی خوب صورت تصویریں قاری کے ذہن پر مرقسم ہوتی ہیں ۔ یہ صنعت محاکات کہلاتی ہے۔ محاکات کا مطلب ہے شاعر شعر میں ایسے الفاظ کا استعمال کرے جن سے پورا منظر قاری کی آنکھوں کے سامنے آجاۓ۔ جیتی جاگتی تصویر ۔ یہ جن الفاظ کے ذریعے صنعت_تضاد کا استعمال کیا گیا یہی تمام الفاظ زندہ چلتی پھرتی تصویروں کا سماں بھی پیدا کرتے ہیں۔ یہ دو شعر بھی دیکھیے شاعر نے کتنی عمدگی سے محاکات کا استعمال کیا ہے۔

درد میں ڈوبی ہوئی اک داستاں کا اقتباس

اُس کے چہرے پہ لکھا ہے کس جہاں کا اقتباس

میں لب_ساحل کھڑا سنتا رہا موجوں کا شور

اور وہ لکھتا گیا میرے گماں کا اقتباس

اس کا چہرہ چودھویں کے چاند کا عکاس ہے

اس کا آنچل ہے چمکتی کہکشاں کا اقتباس

اب ان اشعار میں جہاں شفیق مراد کے تخیل کی جلوہ گری نظر آتی یے جو مختلف النوع مناظر کو عکس بند کرنے کی لاجواب صلاحیت سے مملو ہے تو دوسری طرف تیسرے شعر میں حرف چ کی بار بار آمد صنعت_تکرار _حرفی کا پتا دیتی ہے۔ اسی طرح صنعت تکرار کی یہ مثال دیکھیے:
ظلمتوں کے دور میں بھیجی ہے گھر گھر روشنی

نفرتوں کے شہر میں ہم نے اگاۓ ہیں گلاب

شفیق مراد نے مختلف صنعتوں کے استعمال سے جہاں اشعار کے صوتی حسن میں اضافہ کیا ہے وہیں الفاظ کے رنگا رنگ استعمال سے ایسی ایسی تراکیب تراشی ہیں کہ قاری دم بہ خود رہ جاتا ہے۔ یہ چند تراکیب دیکھیے:شورش_میخانہء ہستی،

اندیشہء سودو زیاں، شب_ہجراں، شام و سحر
وغیرہ۔
شفیق صاحب _مطالعہ ادیب ہیں۔ انہوں نے بعض ایسی صنعتوں کا استعمال بھی کیا ہے جن سے ان کی قادر الکلامی کا پتا چلتا ہے جیسے صنعت_مقلوب_مجنح یعنی ایسی صنعت جس میں جس حرف سے شعر کا آغاز ہوتا ہو اسی حرف پہ اختتام بھی ہوتا ہے۔ یہ اشعاردیکھیے:

ایک پل شورش _میخانہ ء ہستی میں رہا

اور اسی پل نے تری یاد سے غافل رکھا

بس گیا ہوں ان کے دل میں اور بانہوں کا حصار

وصل کی شب ہے خدایا !یا کہ سوچوں کا سراب

صنعت_معاد یعنی شعر کے پہلے مصرع کے آخری حرف سے دوسرے مصرع کی ابتدا ہوتی ہے۔

ایک پل شورش_میخانہء ہستی میں رہا

اور اسی پل نے تری یاد سے غافل رکھا

صنعت_مراعاۃ النظیر یعنی شعر میں ایسی چیزوں کا ذکر جن میں باہم مناسبت ہو۔ یہ اشعار دیکھیے

ترکش میں ایک تیر تھا تیرے نصیب کا

جو بے نشاں ہو کے کماں سے گزر گیا

رنگ ، خوشبو، پھول، موسم وصل کے تتلی کے پر
وقت_رخصت چاہتوں کا کاررواں بننے لگا
یہ ظلمتیں یہ تعصب یہ نفرتوں کی فضا
ہر ایک زہر کو اکسیر کر کے دیکھوں گا
مجموعی طور پر دیکھا جاۓ تو شفیق مراد کی شاعری پر تاثیر شاعری ہے اور قاری پر اپنے ان مٹ نقوش چھوڑ جاتی ہے۔

Comments (0)
Add Comment