آفاقی حقیقت

تحریر: خالد غورغشتی

قدرتی ہوا، فضا اور گھٹا سے محروم انسان کی اس دنیا میں ترقی کا راز یہ تسلیم ہونے لگا کہ جتنے پختہ مکانات ہوں گے، اتنا ہی زمانے میں عروج ہوگا۔ آہستہ آہستہ یہ وبا شہروں سے ہوتی ہوتی گنجان آباد علاقوں میں عام ہونے لگی۔ وہ لوگ جو کھیتوں میں دن بھر کام کرتے، سبزیاں، پھل اور اناج اُگاتے، جُوں ہی یورپی ممالک کا پیسہ ان کے ہاتھ لگا انھوں نے زمینوں میں مزید بیج اُگانے کی بجائے وہاں اینٹ، بجری، بلاک، سیمنٹ اور سریے سے مزین ایسے مکانات تعمیر کرنا شروع کردیے کہ جس نے زرعی زمین کو تہس نہس کر کے رکھ دیا اور زمین بنجر ہونے کے قریب پہنچ گئی۔

ان بلند و بالا عمارتوں کا اثر یہ ہوا کہ قدرتی ہوائیں اور غذائیں میسر نہ ہونے کے باعث لوگ آہستہ آہستہ بیمار ہونے لگے۔ وہ لوگ جن کی زندگیاں دیسی غذائیں کھا کھا کر سو سو برس کے بعد تندرست و توانا تھیں، اب آہستہ آہستہ بند مکانوں میں دن رات پڑے رہنے کے باعث گھٹتے گھٹتے ساٹھ سال تک محدود ہو کر رہ گئیں۔ بیماریاں جگہ جگہ سے پھوٹنے لگیں اور تندرستی برائے نام رہ گئی۔ لوگ بیچ جوانی میں شوگر، السر، الرجی، گردے فیل اور ہارٹ اٹیک سے کوچ کرنے لگے۔ ان بند گھروں میں رہنے والے اکثر مہنگی غذائیں اور ادویات کھانے کے باوجود بھی اپنی صحت کو بحال رکھنے میں مکمل ناکام ہوگئے۔

بحالیِ صحت ہوتی بھی تو کیسے اکثریت رات گئے تھے سوشل میڈیا پر لگی رہتی اور صبح دیر سے بیدار ہونے کے باعث تازہ ہوا سے محروم رہتی۔ جس سے وہ پھیپھڑوں اور دماغی امراض میں مبتلا ہونے لگے۔

زندگی ایک بے نام سی حقیقت بن کر رہ گئی، خوراک مصنوعی ہوگئی اور اس میں بھی ملاوٹ نے رہی سہی کسر بھی پوری کر کے رکھ دی۔ جوبن کی طاقت پچھلے دور کی حقیقت بن کر رہ گئی، جو نوجوان پہاڑ کو دھکا دے کر گرا دیا کرتے تھے ان سے دو من وزن بمشکل اٹھایا جاتا۔

بڑی بڑی کوٹھیاں بنانے والوں نے اپنے چند لمحوں کے سکون کے لیے اتنا بھی خیال نہ کیا کہ ان کے پڑوسی کہاں سے تازہ آب و ہوا اور دھوپ حاصل کریں گے؟ لوگوں کی نظریں دوسروں کی زمین پر قبضے کے بعد ان کو اتنا بلند و بالا تعمیر کرنے پر اٹک گئیں کہ جہاں پر مکھی اور مچھر پر بھی نہ مار سکیں۔

کئی لوگ تازہ سبزیوں، پھلوں اور ہواؤں کے لیے ترسنے لگے، ایسی سوچ پیدا کر دی گئی کہ ہر شخص اپنی اپنی خودی میں بدمست ایسے ایسے کام کرنے لگا کہ عقل دنگ رہ جاتیں۔
قیمتی وجود زندہ لاشیں بنے، دو ٹکڑے روٹی کے لیے بھٹکنے لگے۔

یہ کیسی سائنسی ترقی تھی کہ جس نے دنیا کو گلوبل ویلج تو بنا دیا لیکن اس کے ایک ایک ویلج میں لوگ اپنے ہی حقوق کے لیے دربدر بھٹکنے لگے۔ دنیا جسے جدید ٹیکنالوجی کا نام دینے لگی وہ دراصل اپنی اپنی انا کی جنگ تھی۔

سوشل میڈیا سے کاروبار ہی نہیں، سماجی بندھن کی تباہی کا بھی آغاز ہوا۔ اسی طرح جوہری توانائی کا مقصد صرف دنیا کی ترقی کا حصول نہیں تھا بلکہ بربادی کا بھی پیش خیمہ تھا۔ جوہری ہتھیاریوں کی ایجاد سے دنیا تیسری عالمی جنگ کی طرف تیزی سے گامزن ہونے لگی۔

آخری حربہ سب کے پاس یہی رہ گیا کہ اپنے اپنے مفادات کی تکمیل کرنے کے لیے وہ لگ تھے۔ ان ہی مقاصد کے حصول کے لیے تیسری عالمی جنگ کے خطرات منڈلانے لگے. اس لیے اردگرد کمزور ممالک کو بلاوجہ ہی کچلنا معمول بن گیا۔ کیا دنیا میں غذائی قلت اور پانی کی کمی سے عالمی جنگ کا وقت قریب آ پہنچا ہے؟

Comments (0)
Add Comment