____غلام غوث سودوی
دین اسلام میں انسانیت سب سے افضل ہے ۔ جہاں حقوق اللہ سے زیادہ زور حقوق العباد پر دیا گیا ہے۔ جس دین میں انسانی حرمت اور خدمت کا درجہ اتنا بلند کیا کہ بذات خود عبادت جیسا مقام عطا کیا۔ ہم اپنے بارے میں جو سلوک اللہ تعالیٰ سے چاہتے ہیں چاہیے کہ ہم چھوٹے پیمانے پر ویسا ہی سلوک اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ کریں۔ ہم آرزو مند ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم کرے ،
حضور اکرمۖ سے کسی نے دین کی تعریف پوچھی، تو آپۖ نے فرمایا”کہ دین اللہ تعالیٰ کی عظمت اور خلق ِ خدا سے شفقت کا نام ہے۔” مولانا احمد علی لاہوری نے دین اسلام کو ایک جملے میں یوں سمیٹا تھا کہ اللہ تعالیٰ کو عبادت ، اس کے نبی کو اطاعت اور خلق خدا کو محبت سے خوش رکھو۔ یہ تمہید باندھنے کا مقصد معروف کالم نگار، ادیب، نقاد اور فیچر رائٹر سید عارف نوناری کی دو کتابوں، ”ریڈ کراس اور انسانیت اور گھر کا بھیدی” پر چند سطور لکھنا ہے۔ ان دونوں کتابوں کی تقریب رونمائی گورنر ہائوس میں منعقد ہوئی تھی۔عارف نوناری اب تک 24 کتابیں مختلف موضوعات پر لکھ چکے ہیں۔ ”ریڈ کراس اور انسانیت” لکھ کر انھوں نے اردو ادب میں بیش قیمت اضافہ کیا ہے۔ ریڈ کراس جس کو پاکستان میں ہلال احمر کے نام سے جانا جاتا ہے ہلال احمر کا اہم ایجنڈ قدرتی آفات کی بحالی ہے مگر دنیا بھر میں قدرتی آفات، طوفان ، زلزلے ، سیلاب اور دیگر ناگہانی واقعات کے علاوہ ریڈ کراس نے سماجی و فلاحی کاموں کو سرانجام دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ریڈکراس / ہلال احمر انسانیت کی اقدار کا پیروکار ہے۔ جہاں کہیں بھی انسانیت کو تکلیف ہو، محرومیت ہو، ضرورت ہو یا امدادی کارروائیوں کو بروئے کار لانا ہو تو ہلال احمروہاں شانہ بشانہ کھڑا ہونے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔
قارئین گومگو کی کیفیت میں نہ رہیں۔ وضاحت کی جاتی ہے کہ ریڈ کراس ایک بین الاقوامی فلاحی تنظیم ہے۔ یہ واحد ارادہ ہے۔ جوامتیازات اور رنگ و نسل سے بالاتر ہو کر جب بھی کہیں کوئی آفت و مشکل کی گھڑی آن پہنچی تو انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے کام کیا ہے۔
مصنف پانچ سال تک ہلال احمر میں خدمات سرا نجام دیتے رہے ہیں۔ لہٰذا ہلال احمر کے انسانیت کی فلاح کے لیے کیے گئے کارناموں، ریلیف کی سرگرمیوں کے لئے کی کئی منصوبہ بندیوں ذاتی و عملی مشاہدات کی روشنی میں انھوں نے ”ریڈ کراس اور انسانیت” کے موضوع پر کتاب لکھ کر اُسے پاکستان میں ”اُردو کی پہلی کتاب” ہونے کا شرف بخشا ہےْ جس پر بجا طور پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ انھوں نے اس کتاب میں ہلال احمر کی تاریخ، ذمہ داریوں، ریلیف کی سرگرمیاں، کردار، منشورو مقاصد، کارکردگی، ریفارمز، اہمیت ، افادیت کو خوب صورت پیرائے میں بیان کیا ہے۔
کتاب کے بارے میں خود مصنف پیش لفظ میں رقم طراز ہیں۔”انسانیت کی خدمت اور بھلائی یقینا اچھا عمل ہے۔ دنیا کے اکثر و بیشتر ممالک میں ہلال احمر/ ریڈکراس انسانیت کی خدمت میں مصروف عمل ہے۔ ”ریڈ کراس اور انسانیت ” کے موضوع پر کتاب لکھنے کا مقصد بھی یہی ہے۔ کہ ان اصولوں کی پیروی و تقلید کی جائے، جن کے سبب انسان کا وجود عمل میں آیا ہے۔ ریڈ کراس کے حوالہ سے دنیا بھر میں انگریزی زبان میں بے شمار کتب موجود ہیں۔ جینواء ریڈ کراس کے بین الاقوامی ہیڈکوارٹرز سے دنیا بھر میں قدرتی آفات پر بے شمار کتب شائع ہوئیں۔ لیکن یہ اردو میں ہلال احمر/ ریڈ کراس پر پہلی کتاب ہے جس کو لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ہلال احمر کے مقاصد اور منشور سے عام انسان کو بھی آگاہی حاصل ہو سکے۔ رضا کارانہ خدمت کا جذبہ ہر انسان میں قدرتی طور پر موجود ہے۔ دنیا میں انسان ہی انسان کے کام آتا ہے۔ یہی انسانیت کی معراج ہے” انسانیت کی خدمت کے لیے کیا جانے والا کام باقی رہتا ہے مسیحائی باقی رہتی ہے اور محبت کی خوشبو باقی رہتی ہے۔ سید عارف نوناری کی دوسری کتاب ”گھر کا بھیدی ” ان کے لکھے گئے کالموں پر مشتمل ہے۔ جو کہ ملک کے نامور اخبارات میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ اُن کا شمار جدید کالم نگاروں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے کم عرصے میں اپنے آپ کو ادبی وصحافتی دنیا میں مستند کالم نگار کی حیثیت سے منوایا ہے ۔ اُن کی سوچ میں گہرائی ہے۔ ان کی تحریروں میں مبثت سوچ اور اصلاحی پہلو نمایاں ملتے ہیں۔ وہ ایک درد مند دل رکھنے والے ایک حساس ادیب ہیں۔
ان کے کالم معاشرہ کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔ ان کے کالم جاندار اور مسائل کے حل سے بھر پور ہوتے ہیں۔ ”گھر کا بھیدیُ” میں شامل کالم ملکی و بین الاقوامی دونوں کے مسائل پر لکھے گئے ہیں۔اس کتاب میں طنز ومزاح کا عنصر غالب ہے اُن کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ وہ کالم میں مسائل و تنقید کے ساتھ ساتھ اُن کے حل بھی حکام بست و کشاد کی نذر کرتے رہتے ہیں۔
اس کتاب میں انھوں نے عدلیہ، پارلیمنٹ، انتظامیہ، پاکستان پوسٹ، حکومتی بنیادی ضروریات، قیدیوں کی ریفارمز، پانی کا بحران، کوالٹی ایجوکیشن، دہشت گردی کا خاتمہ اور قومی ذمہ داریاں، معاشرہ کی شکست و ریخت، بچوں کی مفت تعلیم، اجتماعی شادیوں کا رحجان، نجی تعلیمی اداروں کی بدمعاشیاں، تھرپار کر مسیحا کا منتظر، مصنّفین و پبلشرز، پارٹی قیادت کی تبدیلی، چائلڈ لیبر، چھوٹا کنبہ، خواتین پر تشدد، قائداعظم کا پاکستان ، صارفین کے حقوق، پاکستان ریلوے، افسر شاہی، مٹی بنے سونا، جمود کا شکار معاشرہ، اچھی حکمرانی جیسے موضوعات پر درد مندی سے اظہار خیال کرتے ہوئے غیر جانبدارانہ رویہ اختیار کر کے کالم لکھے ہیں۔ اس کے علاوہ مصنف نے دیگر ممالک کے معاملات پر بھی مخصوص انداز میں اظہار کیا ہے۔ خصوصاً انڈیا کی چیرہ دستیوں کو بے نقاب کرنے کے لیے انڈیا کے پاکستان مخالف منصوبوں اور کشمیر کی صورت حال کو موضوع بحث بنایا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اُن کے کالم لکھنے سے انڈیا اپنی پاکستان مخالف حرکتوں