منشا قاضی
حسب منشا
جو قومیں اپنی تاریخ فراموش کر دیتی ہیں تاریخ انہیں فراموش کر دیتی ہے جس قوم کو بھی تاریخ میں کمال و عروج حاصل ہوا ہے اور جو قوم بھی پائیدار نقش تاریخ کے صحرا میں ثبت کرتی ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مقصد سے عشق رکھتی ہو، اس کے سامنے کوئی نصب العین ہو، وہ عزم کی صفت سے متصف ہو اور وہ قومیں جو انسانیت کے لیے نفع بخش کام کریں وہ دنیا میں اوپر اٹھتی ہیں اور عزت پاتی ہیں ، جو قوم وقت کی قدر نہیں کرتی اور اس میں نظم و ضبط کا فقدان ہو اس قوم کا ترقی کرنا مشکل ہے جو قوم عقل و فکر سے کام لیتی ہے اور تحقیق و انکشاف کی راہ پر پیش قدمی کرتی ہے وہی عظمت کی حقدار ٹھہرتی ہے ڈور آف اوئرنس ایک ایسی آرگنائزیشن ہے جو غریبوں اور مفلسوں اور ناداروں اور یتیموں کا سہارا ہے آپ نے اگر نسل انسانی کے سچے خیر خواہ اس گئے گزرے دور میں دیکھنے ہیں تو آپ ڈور آف اوئرنس کے زیر انتظام چلنے والے اداروں کو دیکھیں جہاں بے ہنر لوگوں کو ہنر اور انہیں تربیت سے بھی آراستہ کیا جا رہا ہے ڈور آف اوئرنس اس وقت پاکستان میں غیرت و حمیت کی دولت کے ساتھ ساتھ علم و ہنر کی دولت سے بھی مالا مال ہے نظم و ضبط ، ایثار و قربانی اور دوستی کی تمام اصناف سے انصاف کرنے والی آرگنائزیشن ہے پاکستان کے کسی بھی خطے پر کوئی آفت آئے اور ان کی مدد میں ڈور آف اوئرنس کے ساتھ ساتھ آپ کو پاکستانی قوم کا جذبہ بھی جاگتا ہوا نظر آئے گا ڈور آف اوئرنس کی چیئر پرسن محترمہ ربا ہمایوں کا زاد راہ خدمت کی جلوہ گاہ ہے اور وہ اپنی خدمات سے آگاہ ہے ، وہ کام کر رہی ہیں آپ کے سامنے ہمالہ کی بلندی بھی شرماتی ہے اور کوہستانی سلسلے بھی اپنی پستی کا رونا روتے ہیں محترمہ ربا ہمایوں درد دل رکھنے والی وہ خاتون ہے جو رہنما ہے ۔ سیاست دان نہیں ہے جو آنے والے انتخابات کے بارے میں سوچتے ہیں لیکن راہنما آنے والی نسلوں کی اصلوں کی فصلوں کو شاداب کرتا ہے اور ربا ہمایوں آنے والی نسلوں کے بارے میں سوچتی ہے ۔ سالانا فنڈ ریزنگ ڈنر 28 نومبر فلیٹیز ہوٹل لاہور میں ہو رہا ہے آپ ضرور تشریف لائیں اور دل کھول کر چندہ دیں کیونکہ ڈور آف اوئرنس کی چیئر پرسن اپنی مادر وطن کو اپنے خاندان سے زیادہ چاہتی ہے لیکن اس سے بھی کئی گنا نسل انسانی کے لیے آپ کی محبت اپنی وطن سے بھی زیادہ شدید ہے انسانی ہمدردی خدا کی دین ہے قبیلوں اور برادریوں میں بٹے ہوئے لوگوں کو یہ سوچنا چاہیے سب ہیں تو ایک ہی نسلیں انسانی سے جب تک ہم میں بنی نوع انسان کی خوبیاں پیدا نہیں ہوتی اس وقت تک حقیقی انسانی سماج کی تشکیل ممکن نہیں ہے ڈور آف اوئرنس انسانی سماج کی تشکیل میں اپنا جو کردار ادا کر رہی ہے وہ جزو اعظم کی حیثیت رکھتا ہے دلوں کو فتح کرنے کا فن اگر آپ سیکھنا چاہتے ہیں تو لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ اگر تمہیں زندگی سے محبت ہے تو انسانیت سے محبت کرو سب سے عظیم انسان وہ ھے جس نے انسانوں کی سب سے زیادہ خدمت کی۔ اگر اپ سفر پر نکل چکے ہیں تو بہترین سفر وہی ہے جو رواداری اور برداشت سکھاتا ہے سفر کرنے سے انسان کو بہت سے تجربات حاصل ہوتے ہیں لیکن ڈور آف اوئرنس کا سفر نسل نو کا سفر ہے اور ان کو منزل مراد تک پہنچانا مشن ہے اور یہ مشن کو اپ جشن میں بھی بدل سکتے ہیں اس وقت جب اپ منزل مراد پر پہنچ جائیں اور یہ حقیقت ہے ڈور آف اوئرنس کی چیئرپرسن محترمہ ربا ہمایوں کا ارادہ اور مشن معاشرے کی اصلاح اور فلاح کے حسین امتزاج سے پیدا ہوتا ہے۔ ڈور آف اوئرنس کی چئیرپرسن کو میں نے سماج میں ایک توازن پیدا کرنے والی عظیم رہنما کے طور پر متحرک پایا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ محترمہ ربا ہمائیوں کی فکری رعنائیوں کے چراغ روشن ہیں ۔ یہ کاروان بہار اس لیے بھی راہ میں بھٹک نہیں سکتا کیونکہ منزل مراد تک پہنچنے کے لیے ڈور آف اوئرنس کی چیئر پرسن کی نیت اور آپ کی معیت پورے کارواں کو سوز و گداز کی دولت سے مالا مال رکھتی ہے ۔
یہ کاروان بہار اب بھٹک نہیں سکتا
روش روش پر ہے نقش پا اس کا
ڈور آف اوئرنس کی چیئر پرسن محترمہ ربا ہمایوں نے یہ آغاز کہاں سے کیا ان کی اپنی زبانی سنیے پڑھیے موصوفہ نے اپنے والد گرامی کی یاد میں ڈور آف اوئرنس کا آغاز کیا تھا اور آج کچھ غریب بچوں میں کھانا تقسیم کرنے سے اس طرح سے کام شروع ہوا کہ میں ان بچوں سے کہتی تھی کہ لائن بناؤ تمیز سے لو سب کو دے کے جاؤں گی لیکن وہ اتنا لڑتے تھے آپس میں، لیکن جب انہوں نے میرے ساتھ بات چیت کی انہوں نے کہا کہ ہمیں کبھی کسی نے نہیں سکھایا کہ کس طرح سے لائن بنانی ہے اور کس طرح سے تمیز سے لینا ہے تو میں نے ان کو کہا کہ آچھا اگر تم لوگوں کو میں پڑھاؤں گی تو پڑھو گے تو انہوں نے کہا کہ اگر آپ ہمیں پڑھائیں گی تو ہم پڑھیں گے، وہاں سے پھر میں نے ان کو روانہ بنیاد پر جا کے ان کو پڑھانا شروع کیا بہت سی کاپیاں ان کے لیے قائدے وغیرہ منگوائے اور ایک جھگی میں بیٹھ کے ہم لوگوں نے یہ سلسلہ شروع کیا بچے مجھ سے بہت شوق سے پڑھتے تھے کیونکہ اس کے بعد انہیں ناشتہ ملتا تھا ان کی پسند کا تو یہ سلسلہ تقریباً ایک سال چلتا رہا اور میں نے بڑی کوشش کی کہ ان لوگوں کو میں سکولوں میں داخل کرا کے اور سپروائز کروں لیکن وہ اس کے باوجود وہ بچے جو تھے وہ سکولوں میں نہیں جاتے تھے پھر دوبارہ