زعیم رشید کی ہینڈ میڈ نظمیں۔(پہلا حصہ )
بشیر احمد حبیب
زعیم رشید کی نظموں کی کتاب ،مدت سے سرہانے رکھی تھی ،اور میں روز سوچتا تھا آج سونے سے پہلے لازمی پڑھنی بھی ہے ،اور تبصرہ بھی لکھنا ہے ۔
مگر جیسے ہی انستاب میں خالد احمد کے اس شعر تک آ تا وہیں رک جاتا ۔۔
نس نس میں تھکن بن کے سمٹ آئی مسافت
دیکھا تھا فقط سایہ دیوار کسی نے
اور میرے دھیان میں وہ منظر پھر جاتا، جب ہم ٹریک این ٹائی عمران منظور صاحب سے ملنے گئے، تو سڑھیاں چڑھنے سے پہلے، آ فس میں بیٹھے خالد صاحب پر نظر پڑی ، ان کو سلام کیا اور اوپر چلے گئے ۔ اتنی ہمت ہی نہیں ہوئی کہ ان کو مل لیں ، ذہن میں یہی تھا اتنے بڑے تخلیق کار کو اپنا تعارف کس حثیت سے کروائیں گے۔
اور یوں ان سے کبھی ملاقات نہ ہوسکی ۔ اور یہ آرزو حسرت بن گئی ۔۔ بقول شاعر
نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی
بڑی آ رزو تھی ملاقات کی
ہر شب ایسے ہی ہوتا اور میں انہی خیالات کی رو میں بہتا بہتا محو خواب ہو جاتا ۔
یہ کشمکش جاری رہی ، اور کل پرسوں میں تبدیل ہوتے رہے،
یہاں تک کہ Saturday آ گیا اور یہ کام تعطل کا شکار رہا ۔
پھر مجھے اچانک یاد آ یا پَطرس بخآری نے ، میبل اور میں، میں کتاب کو بغیر پڑھے تبصرہ کرنے کا جو طریقہ بتایا ہے ، کیوں نہ اس سے کام چلایا جائے۔
میں نے کاغذ قلم پکڑا اور لکھنا شروع کیا ۔
زعیم رشید نے اپنی کتاب ہینڈ میڈ نظموں میں، فکر و آ گہی کے جو غنچے کھلائے ہیں، ان کی خوشبو سے، ایک عالم مہک رہا ہے ۔ انہوں نے نظم کے حوالے سے ، جو بڑا تخلیقی کارنامہ انجام دیا ہے ، اس کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو سکتا ہے ، کہ عہد ساز شاعر غلام حسین ساجد نے، ان کی “بلوغت کی ایک نظم ” کی کھلے دل سے تعریف کی ، جب کے وہ بہت ہی کم ایسا کرتے ہیں، کیوں کہ وہ معیار پر سمجھوتہ نہیں کرتے، مجھے پچھلے چار پانچ ماہ میں صرف دو خوش قسمت تخلیق کار ایسے نظر آتے ہیں، جنہوں نے کارواں میں کچھ شئیر کیا، اور ساجد صاحب نے اسے پسند کیا، ایک رحمان حفیظ کی غزل اور دوسری زعیم رشید کی بلوغت کی ایک نظم۔
اتنا لکھا تھا ۔۔۔ احساسِ جرم ہوا ، دل نے ملامت کی اور میں نے کاغذ قلم رکھ دیا۔ میں نے تہیہ کیا اب مضمون لکھنا ہے تو کتاب پڑھ کر ہی ورنہ نہیں۔
پھر خیال آ یا پہلے صفحے سے آگے بڑھ نہیں پا رہا ۔ کیوں نہ ہینڈ مینڈ نظموں کو ریورس آرڈر میں پڑھا جائے ۔ دلیل یہ تھی کہ دسویں منزل تک چڑھنا مشکل ہوتا ہے اور اترنا انتہائی آسان۔
آ خری نظم کھولی تو سیرتِ رسول سے معطر طویل نظم یثرب والا سامنے تھی ۔ نظم پڑھنے کے بعد دل اور گداز ہو گیا ۔
اس کے بعد ایک ایک کر کے میں نے نظموں کو محسوس کرنا شروع کیا۔
مثلاً
میں جاؤں کہاں؟
زینم کے لیے ایک نظم
کوکھ
اور پھر
ہینڈ میڈ نظم
ہینڈ میڈ نظم کے ان مصرعوں کو پڑھ کے ۔
اُس صدائے کن سے پہلے کون تھا ؟
کیا تھا؟
جو یہ صورت پہن کر آ گیا ہے
زمیں سے آسماں تک صورتیں ہی صورتیں ہیں۔
مجھے محسوس ہوا زعیم رشید نے بھی، وجودیت کے مقام پر ہوتے ہوئے، غالب کی طرح وہی سوال اٹھا دیا ہے ۔ یعنی
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں
اسی طرح
“زینم کے لیے ایک نظم” ۔۔۔ پڑھتے ہوئے سمجھ نہیں آ تا یہ زینم کے لیے ایک نظم ہے ،
یا پھر زینم ہی نظم ہے۔
جب ہم نظم “لوٹنا ہو گا” کی یہ لائنیں پڑھتے ہیں
اک نظم ۔۔۔۔۔ میری نظم
جس کے رنگ جزبوں میں رچے تھے، اور
کسی کے ہونٹ
آ نکھیں
لفظ مصرعے
سب کے سب
کئی اجزا بہم آ میز ہو کر
نظم کی صورت میں آ یے تھے۔
میں اب بھی سوچ میں گم ہوں
کہ آخر ہینڈ میڈ اس نظم کو
کس نے بنایا ہے ؟
تو زعیم دراصل وہ مقام چھو لیتا ہے ۔۔۔ بقول شاعر
پھر اس کے بعد، نہ میں تھا نہ میرا سایہ تھا
اب میرے سامنے کتاب کا پیشِ لفظ ہے ۔۔
جس کا عنوان ہے ۔۔
“خدا اک نظم ہی تو ہے”۔
اگر مسودہ نوید صادق کو دکھایا ہوتا تو وہ زعیم کے کان میں کہتے یہ شرکیہ مصرعہ ہے اسے بدلو ۔۔
مگر جب میں پوری نظم سے گزرتا ہوں اور ان لائنوں تک آتا ہوں ، کہ
یہ میری شاعری میرا تعارف ہے
کہ جب سے زندگی اوڑھی تو مجھ پہ شاعری اتری
تو مجھ پر کھلتا ہے ۔۔
جب نظم زعیم پر اترتی ہے تو وہ اللہ کو پہچانتا ہے۔
زعیم کا کمال یہ ہے، اس سے مل لیں یا ہینڈ میڈ نظمیں پڑھ لیں کوئی دوئی نہیں کوئی فرق نہیں ، اور یہ بات ایک نظم تک محدود نہیں مجھے تو اس پوری کتاب میں ایک مربوط نظام فکر نظر آ تا ہے ، اور یہ نظمیں مجموعی طور پر جو فضا پیدا کرتی ہیں وہ ایک کھرے اور سچے تخلیق کار سے ہمارا تعارف ہیں۔
مثلاً جب ہم “بلوغت کی ایک نظم” کی آخری لائنوں تک پہنچتے ہیں ۔
غار کا دہانہ کھلا ہوا تھا
لیکن میں تھا
اپنی پیاس کو تنہا چھوڑ کے
بھاگ آ یا تھا
ہم فوراً جان جاتے ہیں ، زعیم شریعت پر چلنے والا ایک پکا سچا مسلمان ہے ۔۔۔
اب میں چلتے چلتے میں اس شعر پر آ کے ٹہر گیا ہوں ، جس کا عنوان ہے ، بیگم سے،
ہمیں زندگی کا سلیقہ نہیں ہے
مگر اپنے بچے بڑے ہو رہے ہیں
میں دیر تک سوچتا رہتا ہوں یہ کس احتیاط کی طرف اشارہ کر رہے ہیں ، بقول امجد اسلام امجد
سمجھ میں کچھ نہیں آ تا کسی کی
اگر چہ گفتگو مبہم نہیں ہے
نظم “نامعلوم” کا آ غاز دیکھئے ،