روداد خیال ۔صفدرعلی خاں
اب ہمارے معاشرے میں منشیات سے جڑے جرائم کی بھرمار ہورہی ہے اور اسے اب تک ہم مائوں کی غفلت کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔اس میں کوئی شک وشبہ بھی نہیں کیونکہ بچوں کی تربیت کی ذمے دار ماں کو ہی قرار دیا جاتا ہے،آج بھی دنیا بھر کے دانشور اور فلسفی اس بات پر متفق ہیں کہ بچے جو کچھ ماں کی گود سے سیکھ سکتے ہیں وہ دنیا کا کوئی سکول،کالج یا یونیورسٹی نہیں دے سکتے،اب یہ لمحہ فکریہ ہے کہ جب کوئی بچہ نشے کا آغاز کرتا ہے تو مائوں کو پتہ ہی نہیں چلنے دیا جاتا اکثر معاملات میں پتہ چلنے کی صورت ماں اپنے طور پر بچے کی منت سماجت کرکے اسے روکتی ہے اور مامتا کی محبت میں وہ اسکی شکایت اسکے باپ سے نہیں کرتی یہاں سے ہی سنگین معاشرتی برائیوں کا جنم ہوتا ہے۔بہرحال بچوں کی تعلیم و تربیت کے ماں اور باپ دونوں ہی ذمے دار ہوتے ہیں ،مائوں کو بچے کے بارے میں باپ سے زیادہ علم ہوتا ہے اور وہ بچے کی ابتدائی تربیت اگر دھیان سے کرے تو پھر کوئی خرابی کم ہی جنم لیتی ہے ،بہرحال اس وقت منشیات کے عادی نوجوانوں کی تعداد ہمارے اندازوں سے کہیں زیادہ ہوگئی ہے ،گزشتہ برس جاری ہونے والی اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے منشیات کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 70 لاکھ سے زیادہ افراد نشے کی لت میں مبتلا ہیں۔ ان میں کیمیکلز والے نشے کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے، جن میں ہیروئن، کوکین اور آئس کا نشہ شامل ہے۔ان میں پاکستانی خواتین میں نشے کے استعمال کا رجحان تشویشناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے۔گزشتہ دنوں معروف ڈاکٹر شاہد صدیق کے قتل کی ہوشربا رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں انکے بیٹے قیوم نے اب اقبال جرم بھی کرلیا ہے ۔جب پولیس کے تفتیشی افسروں نے قاتل بیٹے قیوم سے کہا کہ یہ ساری جائیداد تمھاری ہی تھی پھر تم نے باپ کو قتل کیوں کیا ؟ تو بیٹے نےبڑی سفاکی سے کہا کہ” مجھے یہ جائیداد جوانی میں چاہئے بڑھاپے میں میرے کس کام کی” !۔اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ باپ کو کرائے کے قاتل سے قتل کروانے والے بیٹے کو اپنی اس واردات پر کوئی شرمندگی یا ندامت نہیں ،یہ سب نشے کا کمال ہے اب کچھ کالم نویسوں نے اسکے نشے کی نوعیت پر نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ وہ آئس نہیں ،بلکہ کوکین کا نشہ کرتا ہے بہرحال جو بھی نشہ باپ کے قتل پر بھی انسان کو پشیمانی سے دور رکھے اس سے بری کوئی چیز نہیں ،اب تو بعض اوقات یہ بھی سننے میں آتا ہے کہ بات خود کشی تک چلی جاتی ہے ۔نشہ سے چھٹکارہ دلانے کے نام سے قائم “ری ہیبلیٹیش سنٹرز مہنگے اور غیر معیاری ہونے کی وجہ سے 80فیصد سے زیادہ مریض کامیاب علاج کے بعد دوبارہ نشہ لینے لگتے ہیں اور یہ پہلے سے بھی زیادہ خطرناک ہو جاتے ہیں ،اس پر ہسپتالوں میں نشہ کے علاج کے حوالے سے کچھ مراکز قائم ہیں تو وہ غیر فعال اور نہ ہونے کے برابر ہیں ۔منشیات کے عادی نوجوانوں کو علاج گاہوں تک پہنچانا ہی اصل خدمت ہوگی ،وزیراعلی’ پنجاب مریم نواز شریف نے صوبے میں اربوں روپے مالیت سے انسداد منشیات کا جدید مرکز قائم کرنے کا اعلان کیا ہے مگر ابھی اس پر کوئی باقاعدہ کام کا آغاز نہیں ہوسکا ،ایسے کئی مراکز قائم ہونے چاہئے جہاں مریض کو تشخیص سے لیکر علاج تک تمام سہولیات مفت دی جائیں اور سب سے اہم پنجاب پولیس کے ساتھ ڈاکٹرز کی ٹیم بنائی جائے جو صرف نشاندہی پر نشے کے متاثرہ مریض کو ری ہیبلیٹیش سنٹرز تک پہنچانے کی ذمے داری احسن طریقے نبھائے ،ملک میں بڑھتی بے روز گاری ،مہنگائی اور جہالت بھی منشیات کے استعمال میں اضافے کا سبب بن رہی ہے ان بنیادی وجوہات پر بھی توجہ دینا ہوگی خصوصاً ریاست اب ماں کا کردار نبھاتے ہوئے نوجوانوں کو نشے سے نجات دلانے کے حوالے سے اپنی ذمے داریاں نبھائے ،ورنہ یہ قوم باقی نہیں رہی گی۔