محبتوں کا پیامبر ۔۔۔۔۔ (اقبال راہی)

ادب کے ذریعے لوگوں کی معاشرتی اور سیاسی زندگیوں میں بہتری آتی ہے ۔ جب ہم خلوص نیت سے دوستی کے جذبے کے تحت ادبی تبادلہ خیالات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اہم اصل میں انسانی اقدار اور اخلاق کو فروغ دے رہے ہیں ۔ فطرتاً جذبات محسن و عشق میں ارتباط عشق دل بن کر فضائے شوق میں اپنی دُھن چھیڑتا ہے۔
جب سے دُنیا میں شاعری کا آغاز ہوا اِنسان اپنے جذبات کا بہتر انداز میں اظہار کرنے لگا ہے۔ اس میں رومانوی جذبات کو نمایاں اہمیت حاصل ہے۔ کسی فن پارے کو سمجھنا دراصل ایک نئے زاویے سے زندگی کو سمجھنا ہے۔ جب ہم اپنے ماحول سے اہم رشتہ ہونے کی سعی کرتے ہیں۔ تو بے نام چیزوں کو نام دیتے ہیں ۔ اور ان ناموں کے پیچھے ایک مفہوم پوشیدہ ہوتا ہے۔ شاعری زندگی کا مفہوم سمجھنے میں مدد کرتی ہے ۔ آدمی جس سے محبت کرتا ہے اس کی ہر ادا اچھی لگتی ہے ۔ اس کی کچھ ادائیاں بھی دل کو بھاتی ہیں ۔ اور اسے اس کی ہر چیز ہی پسند آتی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی کسی کو چاہے اور وہ عالم ہجر میں ہر وقت دھیان میں نہ رہے ۔ خیر بات کہاں سے کہاں نکل گئی ۔ مگر یہ ضروری تھا ۔ تب ہی کسی اُستاد شاعر پر بندہ بات کر سکتا ہے۔
میری مراد حضرت اقبال راہی جنہوں نے اپنی پوری زندگی ادب کی خدمت میں گزار دی ۔ ادب ہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا سمجھا ۔ ادب کی سطح پر بہت نام پیدا کیا۔ بے شمار کتب کے مصنف ہیں ۔
درویش اقبال راہی جی کی کتب کا حوالہ جن میں :۔
زنده حروف
ہائی الرٹ پاکستان
قطع برید
شل
قطعات پر مشتمل پاکستان کا روز نامچہ مختلف اخبارات میں لکھتے رہتے ہیں ۔
یہ مجموعے نئے رنگوں کے ساتھ سامنے آئے ہیں ۔ ان کی شاعری پر بات کروں تو آتش بپا جذبوں اور خیال انگیز سوچوں پر محیط ہے۔ غزل کی صنف ہی ایسی ہے کہ اس میں ذات کے اندر الاؤ بھی دکھائی دیتا ہے ۔ زندگی اور زمانے کے محسوسات بھی کبھی شعلہ بن کر دہکتے ہیں اور کبھی پھول بن کر سامنے آتے ہیں ۔
اقبال را پی جی کی شاعری میں ذات سے زمانے کا سفر دھڑکتا ہے۔ ان کا کینوس بہت وسیع ہے۔
زمانے کے دُکھ درد اور اُمید و پاس کے سلسلے بھی جلوہ ساماں ہیں کیا خوب لکھتے ہیں :۔
اُس بے وفا نے لوٹ کے آنا تو ہے نہیں
اب اس کے پاس کوئی بہانہ تو ہے نہیں
۔۔۔۔۔
منڈلائیں کیوں نہ یہ مرے آنگن کے آس پاس
ان پنچھیوں کا کوئی ٹھکانہ تو ہے نہیں
۔۔۔۔۔
جو بات بھی کریں گے کریں گے یقیں کے ساتھ
ہم نے ہوا میں تیر چلانا تو نہیں ہے
اقبال راہی جی کی شاعری زندگی سے جڑی ہوئی ہے ۔ جو قاری کے جذبے اور سوچ کو بھی متحرک کرتی ہے۔ کمک بھی دیتی ہے ۔ اور راحت بھی بخشتی ہے۔ اقبال را پی جی کا ہر مجموعہ یا تمام کتب کا حوالہ ان کے کرب کا احساس ہے۔ ان کے اپنے اندر کی کسک ہے جو اُنہوں نے راتوں کی تنہائی میں مسلسل جاگ کر موتی نچھاور کیے ہیں ۔ ان کی شاعری سناٹے سے اُلجھنے کا سلیقہ سکھاتی ہے اور غم و آلام کی بارش میں زندہ رہنے کا اعتما دعطا کرتی ہے۔ شعر دیکھیئے :۔
اس قدر گہرا تعلق ہے مرا خوشبو سے
سر پہ رکھ لیتا ہوں پاؤں تلے آئے ہوئے پھول
۔۔۔۔۔
ایک تاریک سے کمرے میں بسیرا ہے مرا
کہاں رکھوں گا ترے ہاتھ کے لائے ہوئے پھول
۔۔۔۔۔
جب وہ آتے ہیں ساون کی رُتوں میں راہی
چوم لیتا ہوں بارش میں نہائے ہوئے پھول
حمد باری تعالی دیکھیئے :۔
ذہن انساں کو بُرائی سے بچاتا ہے وہی
دین کا راستہ دُنیا کو دکھاتا ہے وہی
۔۔۔۔۔
امتحان چاہنے والوں کا اگر ہو مقصود
نار نمرود کو گلزار بناتا ہے وہی
۔۔۔۔۔
اس کی بخشش ہے ہوا چاند ستارے، سورج
قلب میں ٹور کے فانوس جلاتا ہے وہی
نئے سال کی دُعا کا انداز دیکھیئے :۔
خوشبو کی طرح اور اُجالوں کی طرح ہو
یہ سال نہ گزرے ہوئے سالوں کی طرح ہو
۔۔۔۔۔
اس سال نہ چھینے کوئی ماؤں سے حسیں لعل
صدمات کی سوغات کا حامل نہ ہو
۔۔۔۔۔
اس سال نہ کھیلئے کوئی عزت سے ہماری
کہتی ہیں یہاں بیٹیاں افلاس کی ماری
۔۔۔۔۔
اس عالم فانی رہیں امن کے سائے
یہ سال کسی کو بھی بڑے دن نہ دکھائے
ان کے دُکھی جذبات کرب کا اندازہ ان کے اشعار میں واضح نظر آتا ہے۔ زمانے کے دُکھ درد نہیں اپنے ہی لگتے ہیں ۔
دیکھ کر وہ مجھے حیران بھی ہو سکتا ہے
اب کے اس بات کا امکان بھی ہو سکتاہے
۔۔۔۔۔
نفرتیں بڑھتی رہیں گی اسی رفتار کے ساتھ
یہ حسیں شہر بیابان بھی ہوسکتاہے
۔۔۔۔۔
گھر کی دہلیز پہ مشعل لئے موجود ہوں میں
آنے والا کوئی انجان بھی ہو سکتاہے
۔۔۔۔۔
چل پڑیں راہ قناعتاگر ہم راہیؔ
حرص کا سرطان بھی ہو سکتاہے
نیلم اقبال کی ناگہانی وفات سے قبل اقبال را پی جی کے لکھے ہوئے اشعار دیکھیئے :۔
خوشی کی کیا مجال اُترے ہمارے گھر کے آنگن میں
بس اب تھوڑے دنوں میں اس کا قصہ پاک کرنا ہے
۔۔۔۔۔
مرے چاروں طرف پھیلی ہوئی گردش بنائی ہے
جگر کا اور ایک ٹکڑا سپرد خاک کرنا ہے
بیٹی کی وفات کے بعد لکھئے گئے اشعار دیکھیئے :۔
سکون قلب کی دولت سے بہرہ ور نہیں ہوتے
آنکھوں سے اُمیدوں کا ماتم دیکھنے والا
۔۔۔۔۔
بڑی جلدی زمیں کا رزق بن جاتے ہیں اے راہیؔ
بڑھاپے میں جوان اولاد کا غم دیکھنے والے
۔۔۔۔۔
موت نے ایسے دبوچا ہے جگر گوشے کو
جیسے بلی کسی ڈربے سے کبوتر لے جائے
دیسں اور بدیس کے ادبی حلقوں میں اقبال راہی صاحب کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ یہ درویش صفت شاعر محبت اور خلوص کا ایسا لا جواب پیکر ہے جو لوگوں کے ذہنوں میں نقش رہتا ہے۔ یہ فقیر صفت شاعر اپنی طرز شاعری اور خلوص بھرے لہجے کے ساتھ ہر محفل میں ہر دلفریز ہوتا ہے۔
اُردو یا پنجابی کے دیوانے اقبال راہی کی دل سے قدر کرتے ہیں ۔ انکار کا لفظ جناب اقبال راہی کی ڈکشنری میں شامل نہیں ہے ۔ بے شمار شاگرد ہونے کے باوجود وہ انکساری اور عاجزی کا خزانہ لیئے ہر کسی کے ساتھ الفت سے ملتے ہیں ۔ حیرت کی بات ہے کہ انہیں فی البدیعہ شاعری کرنے میں ملکہ حاصل ہے۔
جس محفل یا مشاعرہ میں ہوتے ہیں اپنی باری آنے پر مہمان شعراء کرام کے بارے میں فی البدیہ قطعہ کہہ کر دنیا کو حیران پریشان کر دیتے ہیں ۔
ایسے درویش شاعر ہیں جن کے ہونٹوں پر لفظ “شکوہ” ہے ہی نہیں ۔ انہیں مشاعرے میں جہاں بھی پڑھا دیا جائے وہ خاموشی اور دلچسپی سے اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ اور منتظمین مشاعرہ کو دُعاؤں سے نوازتے ہیں ۔ جناب عاشق راحیل صاحب سے ان کی خوب دوستی ہے۔ گلشنِ ادب“ ان کی اپنی تنظیم ہے جو پچاس سال سے شاعری کے پیاسوں کو جوق در جوق شہد جیسی میزبانی سے سیراب کر رہی ہے۔ اس تنظیم میں اقبال راہیؔ صاحب نقیب محفل بھی اکثر بن جاتے ہیں ۔ لفظوں کے خزانے غلاموں کی طرح ان کے ہونٹوں سے ادا ہو کر ” صاحب شام کے وقار میں اضافے کا سبب بن جاتے ہیں۔ اقبال راہی صاحب حوصلوں کے ایک گوہ گراں ہیں ۔ کیسے کیسے صدمات اُنہوں نے زندگی میں برداشت نہیں کیے ۔ جوان اولا د کا دُکھ ماں باپ کے لیے قیامت سے کم نہیں ہوتا ۔
یہ قیامت کتنی بار اس مر حق شناس کے در پر دستک دے کر گئی ہے ۔ مجال ہے جو کبھی ہمت کو کمزور کیا ہو ۔ جس کسی نے بھی ان سے مشاورت کی ۔ اخلاص اور انکساری کے ساتھ ان کی حاجت روا کی کبھی معاوضہ طلب نہیں کیا ۔ کیسے کیسے رنگ اس جہان میں ٹوٹتے دیکھے ہیں ۔ مگر اقبال راہی صاحب پر قدرت کا خاص احسان ہے وہ مردانہ وار دُنیاوی مسائل اور قربانیوں کو برداشت کرتے آ رہے ہیں ۔ اب تو ان کے بہت سے شاگر د بھی اُستاد بن چکے ہیں ۔ مگر ان کے پایۂ اثبات میں جنبش نہیں آئی ۔ وہ آج بھی اولوالعزم ہیں ۔ وہ آج بھی چھوٹے بڑوں کی رہنمائی کرتے ہیں ۔ وہ ایک ایسے فرشتے کی مانند ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے صرف اور صرف نیکی کے لیے اس دُنیا میں بھیجا ہے۔ ان کے ہاتھ سے ہر انسان کو ضرورت کی شفا ملتی ہے ۔ شہر لاہور اور شاعری کے لیے وہ انمول تحفہ ہیں ۔
میری ہمیشہ سے دُعا رہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے انسانوں کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے اوراقبال راہی جیسے انسانوں سے یہ دُنیا اسی طرح گل و گلزار بن کر مہکتی رہے۔
بیاء جی

articlecolumnsdailyelectionsgooglenewspakistansarzameentodayupdates
Comments (0)
Add Comment