بے نظیر کے دور حکومت میں 1994 میں ملک میں توانائی پر قابو پانے کے لیے آئی پی پی یعنی کو متعارف کرایا گیا ابتداء میں 16آئی پی پیز تھیں جن کے سرمایہ کار سارے باہر کے تھے ان سے توانائی کے سلسلے میں جو معاہدات ہوئے اس میں دو نکات بڑے تشویشناک ہیں ایک تو یہ کہ آئی پی پیز اپنی استطاعت یعنی گنجائش کے مطابق بجلی پیدا کریں گی چاہے آپ کی ضرورت کم سے پوری ہورہی ہوآپ کو ادائیگی پوری کی کرنا ہوگی اس کی مثال یوں سمجھ لیں کہ آپ کی ضرورت دس میگا واٹ کی ہے اور آئی پی پی 25میگاواٹ کی صلاحیت رکھتی ہے تو آپ کو پورے 25میگاواٹ کی ادائیگی کرنا ہوگی اب اس طرح 15میگا واٹ کی رقم وہ بنائے بغیر وصول کرے گی دوسرا ظلم یہ ہوا کہ معاہدے میں یہ بات طے کرلی گئی کہ ادائیگی ڈالر میں ہوگی اس وقت ایک ڈالر 30 روپے کا تھا آج 280 سے زیادہ کا ہے، اب جب مقامی سرمایہ داروں نے دیکھا یہ تو بڑا اچھا کاروبار ہے اس میں کوئی کام کیے بغیر کروڑوں ڈالر حکومت پاکستان سے وصول کیے جا سکتے ہیں تو وہ بھی جو زیادہ تو برسراقتدار گروپ ہی کے لوگ ہیں اس کاروبار میں کود پڑے اس وقت ملک کو ان آئی پی پیز سے 22000میگاواٹ بجلی مل رہی ہے اور پاکستان 45000 میگاواٹ کی ادائیگی کررہا ہے23000 میگا واٹ جو بنائے ہی نہیں جارہے ہیں اس کی ادئیگی کے لیے گنجائش ادائگی کے نام سے عوام کی جیبوں پر ڈاکا مار ا جارہا ہے اسی لیے بجلی کے بلوں نے غریبوں کا چولھا ٹھنڈا کردیا ہے۔
اب حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ پی ڈی ایم کے حمایت یافتہ سابق نگران وزیر تجارت گوہر اعجاز نے آئی پی پیز سے جان چھڑانے کا مطالبہ کر دیا ہے کہ نہ صرف غیر جانبدار ذرائع بلکہ حکومت کے اپنے دیئے گئے اعداد و شمار کے مطابق آئی پی پیز ایک بہت بڑا بوجھ ہیں او ان کے کیپسٹی چارجز نے بہت نقصان پہنچایا ہے آئی ایم ایف بھی ان کی حمایت میں ہے اور ادائیگی پر زور دے رہا ہے اور اسی لئے بار بار بجلی کے نرخ اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھائی جا رہی ہیں۔ عالمی منڈی میں ایسا کوئی طوفان نہیں آیا کہ حکومت نے مسلسل دوبار پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھائے اور اب یہ دس روز ختم ہوں گے تو یکم اگست پھر اضافہ لے کر آئے گا کہ پٹرولیم لیوی 80 روپے فی لیٹر کرنے کا دباؤ پورا کرنا ہے جو ابھی صرف 60 روپے (بقول حکومت) فی لیٹر تک آئی ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ بجلی، گیس اور پٹرولیم کے نرخوں میں اضافہ مہنگائی لاتا ہے۔
یاد رہے کہ ٹیک اینڈ پے ایک معاہدہ ہے جو خریدار کو کسی بھی پروڈکٹ کو لینے کا پابند بناتا ہے اور اگر پروڈکٹ نہیں لی جاتی ہے تو ان کو ایک مخصوص رقم ادا کرنا پڑتی ہے۔ حکومت جہاں سے سستی بجلی ملے وہاں سے خرید لے، 52 فیصد آئی پی پیز حکومتی ملکیت میں ہیں ، حکومتی آئی پی پیز 50 فیصد سے کم پیداواری صلاحیت پر چلائے جا رہے ہیں ،حکومتی آئی پی پیز صارفین سے 100 فیصد کیپسٹی چارجز وصول کر رہے ہیں ،48 فیصد آئی پی پیز 40 خاندانوں کی ملکیت ہیں۔ 48 فیصد آئی پی پیز 50 فیصد پیداواری صلاحیت پر چلائے جا رہے ہیں، ان آئی پی پیز کو 21.12 کھرب روپے کی ادائیگی کی گئی ہے، کچھ عرصہ پہلے تک ہم ان رپورٹس بارے لا علم تھے۔ سرمایہ کاروں کے اعتماد کے نام پر کرپشن اور بد انتظامی کی جا رہی ہے۔
اب صنعت کاروں نے برآمدات سے بھی ہاتھ کھڑے کر دیئے اور واضح طور پر کہا ہے کہ بجلی مہنگی ہونے سے 25 فیصد صنعتیں بند ہو چکیں اور موجودہ صورت حال میں عالمی مارکیٹ میں مقابلہ مشکل ہے۔ جبکہ حکومت کا یہ حال ہے کہ وفاقی وزیر اویس لغاری فرماتے ہیں کہ آئی پی پیز سے چھٹکارہ مشکل ہے کہ حکومت اور ان کے درمیان معاہدے ہیں ان سے بات چیت ہی ممکن ہے میں وزیر اعظم محمد شہباز شریف کی توجہ دلاتا ہوں اور سوال کرتا ہوں کیا پارلیمینٹ سیاسی مفادات کی قراردادیں اور قوانین منظور کرنے کے لئے ہے یا اس پارلیمان میں عوامی بہبود کا بھی کوئی کام ہو سکتا ہے؟ کیا حکومت اس ایوان کے ذریعے آئی پی پیز سے نجات حاصل نہیں کر سکتی، اس کا طریقہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی اور سینٹ سے ان معاہدوں کی منسوخی کے لئے باقاعدہ قانون منظور کرایا جائے جس کے تحت آئی پی پیز کا مسئلہ دو حصوں میں نمٹایا جائے۔ پہلے حصے کے مطابق تمام مقامی آئی پی پیز کے معاہدے ختم کر دیئے جائیں اور بقایا جات کے لئے مذاکرات کر کے کم از کم ادائیگی اقساط میں کی جائے کہ یہ جتنا لوٹ سکتے تھے لوٹ چکے۔ البتہ جو آئی پی پیز بیرونی ہیں، ان سے مذاکرات کی منظوری حاصل کی جائے اور اس عرصہ میں اپنے زیر التوا ہائیڈل منصوبے مکمل کئے جائیں اور سولر کی ایسی حوصلہ افزائی کی جائے کہ سفید پوش بھی لگوا سکیں۔ اگرچہ سولر پلیٹیں سستی ہوئی ہیں لیکن تا حال ایک عام گھرانے کے سربراہ کی پہنچ سے دور ہیں اگرچہ حکومت پنجاب نے 500 یونٹ تک کے لئے قرض/ امداد کا اعلان کیا، اس کی شرائط ایسی ہیں کہ اقربا پروری ہی ہو سکے گی اور ضرورت مند محروم رہیں گے صوبائی حکومت کو سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لئے بھی 7 سے 8 سو یونٹ تک کے لئے آسان اقساط پر اور کم سے کم شرح سود پر قرض فراہم کرنا چاہئے اور کڑی شرائط سے گریز کرنا بہتر ہوگا۔