تحریر۔ شفقت اللہ مشتاق
صفائی کی اہمیت کا قائل تو انسان شروع سے ہی رہا ہے اور دنیا کو صاف ستھرا رکھنے کا خواہاں بھی رہا ہے اس کی بھی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں اور ان وجوہات کے بارے میں جاننے کے لئے اب ہمارے پاس وقت نہیں ہے کیونکہ ہم نے پہلے ہی بڑا وقت ضائع کردیا ہے اور پتہ نہیں ہمیں دوبارہ موقعہ ملے گا بھی یا نہیں۔ ہمارے عقیدے کے مطابق انسان دنیا میں ایک دفعہ ہی آتا ہے اور وہ بھی ایک خاص وقت کے لئے۔ اس کے دنیا میں آنے کا بھی خاص مقصد ہے اور وہ مقصد پورا کرکے خواص میں شامل ہو سکتا ہے۔ بصورت دیگر آنا جانا لوگوں کا کرہ ارض پر لگا رہتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ خاص بننے کا قرعہ کس کا نکلتا ہے۔ انتظار کی گھڑیاں ختم ہو چکی ہیں جو آگے بڑھ کر کھیلے گا چوکے چھکے مارے گا نہیں تو اس کے چھکے چھڑا دیئے جائیں گے۔ ٹرین کے آنے کا بھی ایک خاص وقت ہے اور ٹرین چھوٹ جانے سے انسان پیچھے رہ جاتا ہے۔ پیچھے چلنے والے سر جھکا کے چلتے ہیں اور آگے بڑھنے والوں کے تذکرے زمین و آسماں پر ہوتے ہیں۔ ویسے ایک دفعہ تو زمین نے انسان کو کھا جانا ہے پھر صور پھونکے جائینگے اور پھر تو بھاگم بھاگ ہو گا۔ کسی کے بھاگ جاگ جائیں گے اور کوئی منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا۔ منہ دیکھنے کی بھی ایک قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ ورنہ اس کام کی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ مہنگائی کے دور میں قیمت کے ہی سارے رولے ہیں ویسے مہنگائی کا آج کل بڑا رولا ہے اور اسی رولے گھولے میں گدا شاہ ہورہے ہیں اور شاہ کے گدا ہونے کا بھی قوی امکان ہے۔ مکان اور امکان میں الف کا فرق ہے اور الف سے ہی تو بات کا آغاز ہوتا ہے۔ آغاز اچھا ہونا چاہیئے اور انجام پر نظر ہونی چاہیئے تاہم نیت کا نیک ہونا شرط ہے۔ شرائط نرم ہوں تو کھیل کے آگے بڑھنے کا بھی امکان ہوتا ہے بصورت دیگر مکان اور مکین دونوں اپنی خیر منائیں۔ خیر کی بات کرنے والوں کا رہتی دنیا تک نام ہوتا ہے۔ شر اور شیطان۔ چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات اور رات کے لمحوں میں کچھ بھی ہو سکتا ہے اسی لئے آوازے لگائے جاتے ہیں جاگدے رہنا۔ جاگ بنا دہی نہیں بنتی ہے اور پھر لسی تو بالکل نہیں بنتی ہے۔ ویسے تو لسی پینے سے نیند آنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور اب جاگنے کی ضرورت ہے اور آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
دنیا کو خوبصورت بنانے میں حضرت انسان کا اہم کردار ہے اور یہ حضرت اچانک سو گئے ہیں۔ پھر ہر طرف گندگی کے ڈھیر ہی ڈھیر اور پھر آبادی کا طوفان بدتمیزی۔ لوگ بھی بدتمیز ہو گئے ہیں۔ ہر جگہ خود بنفس نفیس گندگی پھیلا رہے ہیں اور پھر سرکار جانے اور اس کا کام۔ مزے کی بات ہے سرکار بھی تو اپنی ہے غیر ناں اتھے آوے جاوے۔ بلھے شاہ بھی ہمیں بڑے سبق پڑھا گیا ہے اور ہم نے بلھے کی باتوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہے اور ردی کی ٹوکری کو سربازار پھینک دیا ہے اور اوپر سے ہر چوک میں بورڈ آویزاں کردیئے ہیں۔ صفائی نصف ایمان ہے۔ ایک تو ہمارے ہاں بورڈ آویزاں کرنے کا بڑا رجحان ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب بورڈ پڑھتا ہی کوئی نہیں ہے۔ بورڈوں کی ویسے بھی بھرمار ہے اور اتنے سارے بورڈ پڑھنے کے لئے مسلسل اوپر دیکھنا پڑھتا ہے حالانکہ نیچے دیکھ کر چلنا بڑا ضروری ہے ورنہ کھائی میں گرنے کا بھی قوی امکان ہوتا ہے۔ ہمارا آج کا موضوع ہے صفائی اور ہم موضوع پر ہی رہنا چاہتے ہیں تاکہ توجہ ادھر ادھر نہ ہو جائے اور ماضی کی طرح بات محض بات چیت تک محدود نہ رہے۔ ایک وقت تھا جب ہماری معیشت کا زیادہ تر انحصار مویشی پالنے پر تھا اور اس وقت تعلیم کی بھی کمی تھی اور مویشیوں کی مینیجمنٹ میں سب سے اہم مسئلہ ویسٹ مینیجمنٹ کا تھا۔ شاید ضرورت ایجاد کی ماں ہے اس لئے انسان نے جب بھی ذہن کا استعمال کیا ہے بڑے بڑے مسئلے پل بھر میں حل ہوئے ہیں۔ مویشی بھی تھوک کے حساب سے پالے جاتے تھے اور پھر منوں ویسٹ اور اس کی ڈسپوزل۔ ایندھن بھی بنیادی ضرورت ہے۔ اسی ویسٹ سے اوپلے بنا کر ایندھن کی ضرورت پوری ہو جاتی تھی۔ کچے گھر اور ان کی سالانہ مرمت کا نظام۔ مٹی اور گوبر ملا کر پورے گھر کی لیپائی۔ سیمنٹ والے اپنا مال اپنے پاس رکھیں۔ مویشیوں کے لئے چارہ اور پھر چارے کے لئے زرخیز زمین اور زمین کی زرخیزی بحال رکھنے کے لئے زمینوں میں گوبر کا استعمال۔ یوں ویسٹ مینیجمنٹ بھی ہو گئی اور ویسٹ کا استعمال جس کو آج کی زبان میں ریسائیکلنگ کہتے ہیں۔سائیکل کا پہیہ چل رہا ہے اور ہم سب آگے بڑھ رہے ہیں آگے بڑھنے کے لئے آنکھ دل اور دماغ کھول کے رکھنا پڑتے ہیں نہیں تو ہم سب رولے میں پڑتے ہیں۔ جس جس قوم نے دماغ سے کام لیا ہے اس نے دن دگنی رات چوگنی ترقی کی ہے اور جو بھی جذباتی ہوگیا ہے وہاں شور شرابہ اور بس۔ ہمارے ہاں ویسے تو صفائی کی ہمیشہ ہی بات کی گئی ہے بلکہ بڑے بڑے نعرے لگائے گئے ہیں لیکن آج ہمارے سب سے بڑے مسائل آبادی اور صفائی کے ہیں۔ پالیسیوں کے تسلسل کا ہمارے ہاں بالکل رجحان نہ ہے۔ ہم ووٹ پکے کرنے کے لئے نئے نئے منصوبے لانے کی کوشش کرتے ہیں اور آگے دوڑ پیچھے چوڑ۔ گذشتہ ادوار میں ویسٹ مینیجمنٹ کمپنیوں کا تجربہ بہرحال کامیاب ثابت ہوا حالانکہ ہم نے تو ان کمپنیوں کو بھی متنازعہ بنانے کی پوری کوشش کی اور بالآخر یہ کوشش اللہ کی طرف سے ناکام ہو گئی اور مذکورہ کمپنیاں محفوظ اور مامون رہیں۔ کام بولتا ہے اور کام کو زوال نہیں ہے۔ ان ویسٹ مینیجمنٹ کمپنیوں کا دائرہ شہروں تک محدود تھا اور انہوں نے اپنے سکوپ آف ورک کے مطابق اپنا کردار ادا کیا۔ ان کے پاس مطلوبہ انفراسٹرکچر اور افرادی قوت تھی اور بڑے شہروں میں صفائی کا نظام بہت ہی بہتر ہوگیا۔ ہماری زیادہ تر آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ وہاں بھی سیوریج سسٹم کی سہولت فراہم کردی گئی لیکن اس سسٹم کی مینیجمنٹ کاکوئی مناسب انتظام نہ تھا جس وجہ سے وہاں بے شمار مزید مسائل پیدا ہو گئے اور سب سے بڑا مسئلہ بیماریوں کا پھیلنا۔ مختلف ادوار میں کوشش تو اس سلسلے میں کی جاتی رہی لیکن ایڈہاک ازم کے تحت۔ باقاعدہ نظام مرتب کرکے آپ بڑے سے بڑے مسئلے کو بھی حل کر سکتے ہیں ورنہ تالیاں بجا بجا کر ایک دوسرے کو مبارک باد ہی دی جا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں پنجاب حکومت کا ایک نیا قدم۔ قابل تحسین اور بلکہ قابل تقلید۔
اس وقت صوبہ پنجاب کی آبادی 127.68 ملین ہے اور روزانہ ویسٹ 57500 ٹن پیدا ہوتا ہے جبکہ اس میں سے اکٹھا صرف 18438 ٹن کیا جاتا ہے اور 39062 ٹن کی کوئی ڈسپوزل نہیں کی جاتی ہے جو کہ ماحولیاتی آلودگی کا باعث بنتا ہے اور اس سے بے شمار بیماریاں بھی پھیلتی ہیں۔ ویسٹ مینیجمنٹ کمپنیاں ڈویژنل لیول پر قائم کی گئیں جس طرح کہ مذکورہ سطور میں بیان کیا گیا ہے۔ اب کہ حکومت پنجاب کا ایک نیا پروگرام ستھرا پنجاب۔ اس پروگرام کی بنیاد دیہاتی شہری علاقوں میں ویسٹ مینیجمنٹ کا مربوط نظام کاقیام ہے۔ ڈویژنل لیول پر یقییننا ویسٹ مینیجمنٹ کمپنیاں کام کررہی ہمارے ہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کی تعمیر وترقی میں پبلک اور پرائیویٹ سیکٹرز مل کر اپنا کردار ادا کریں۔ پنجاب میں کسی وقت پنجاب پبلک پرائیویٹ پارٹرشپ اتھارٹی بنی تھی جس کا وجود کرکٹ ہاوس کے باہر آویزاں بورڈ کی شکل میں آج بھی موجود ہے اندر جھانک کر کس نے دیکھا ہے۔ تاہم پنجاب حکومت نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت متذکرہ بالا کمپنیوں کی صلاحیت کو مزید تحصیل لیول تک بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے اور دیہاتی علاقوں میں بھی لینڈ فل سائٹس بنا کر صفائی کے عمل کو یقینی بنایا جائیگا۔ اس پروگرام کے تحت ویسٹ کی ریسائکلنگ پر بھی کام کیا جائیگا۔ اگر آج سے کئی سو سال پہلے کا انسان ویسٹ سے اوپلے اور کھاد بنانےکا کام لے سکتا تھا تو آج کا پڑھا لکھا انسان ریسائیکلنگ کے عمل کو یقینی کیوں نہیں بنا سکتا ہے۔ ستھرا پنجاب اس لحاظ سے ایک بہت اچھافیصلہ ہے کاش اس کے آگے مستقبل میں روڑے نہ اٹکائے جائیں۔ بلاشبہ مناسب سوچ بچار سے کئے گئے فیصلوں کے ثمرات اچھے ہوتے ہیں اور جذباتیت میں کئے گئے فیصلے محض شور شرابہ۔ مناسب منصوبہ بندی اور باقاعدہ منصوبہ سازی ہمارے جملہ مسائل کا حل ہے۔