تحریر ؛۔ جاویدایازخان
ماں کے بارے میں لکھتے ہوۓ ہمیشہ میرا ذخیرہ الفاظ نہ جانے کیوں ساتھ نہیں دیتا ہے ۔ہر لفط جو بھی سوچتا ہوں یا ذہن میں آتا ہے ماں کی شان اور عظمت بیان کرنے کے لیے بہت چھوٹا محسوس ہو نے لگتا ہے ۔لیکن مجبوری یہ ہے کہ مجھے اس لفظ سے بڑا کوئی اور لفظ ڈھونڈے سے نہیں ملتا ۔اس لیے ماں کے لیے انہیں چندخوبصورت لفظوں کو بار بار دہرانا پڑتا ہے جو ہر ہر تحریر میں پڑھے جا چکے ہیں ۔ تا ریخ ماوں کی محبت کے بےشمار واقعات سے بھری پڑی ہے ویسے تو سب مائیں ہی محبت ،خلوص ،قربانی کا پیکر ہوتی ہیں لیکن ماں کا لفظ ذہن میں آتے ہی اپنی ماں یاد آجاتی ہے۔
دعا کو ہاتھ اُ ٹھاتے ہوے لرزتا ہوں
کبھی دعا نہیں مانگی تھی ماں کے ہوتے ہوے ٔ
تمجھےبھی اپنی ماں کا آج سے پینسٹھ سال پرانا ایک واقعہ یاد آجاتا ہے ۔یہ غالبا” ساٹھ کی دھائی کی بات ہے ہمارے والد صاحب کی ڈیوٹی کالا ڈپو جہلم پر ہوا کرتی تھی ۔اباجی نے نزدیک ہی ہنہ پور ایک پرانے ریلوے اسٹیشن کے ایک گھر میں رہائش رکھی ہوئی تھی۔ وہاں سے کالا آڑڈیننس ڈپو نزدیک پڑتا تھا ۔میں صبح ایک فوجی گاڑی میں پڑھنے کے لیے چک جمال جایا کرتا تھا ۔ہنہ پور کے یہ ریلوے مکانات بہت پرانے اور ٹوٹے پھوٹے ہوا کرتے تھے ۔ایک دن بہت شدید اور قیامت خیز بارش ہوئی جو رکنے کا نام ہی نہ لیتی تھی ۔اباجی ڈیوٹی پر گئے ہوۓ تھے ۔ہماری والدہ اکیلی ہم تین بچوں کے ہمراہ گھر پر تھیں ۔کہ ایک شور مچ گیا کہ سیلابی ریلہ آگیا ہے ۔ لوگ ادھر اُدھر بھاگنے لگے ۔طوفانی بارش کے ساتھ ہی یہ سیلابی ریلہ اور بارش کا پانی بڑھتا ہی چلا جاتا تھا ۔بجلی کی چمک اور طوفانی گرج عجیب خوف پیدا کر رہی تھی سیاہ بادلوں نے دن میں رات جیسا اندھیرا پھیلا دیا تھا ۔ہمارے گھر میں بھی پانی اونچا ہونے لگا تو ہماری امی جان ایک ہمسائی کو بلا لائی اور گھر کی چارپائیاں ایک دوسرے پر رکھ کر پانی سے بچنے کی تدبیر کرنے لگیں ۔انہوں نے تین چارپائیاں ایک دوسرے کے اوپر رکھیں اور سب سے اوپر والی چارپائی پر ہم بچوں کو بیٹھا دیا اور کچھ ضروری سامان رکھ دیا ۔ہمسائی نے مشورہ دیا کہ بچوں کو یہا ں محفوظ چھوڑ کر خو د سامنے والے درخت پر چڑھ جائیں وہاں سے نگرانی بھی رہے گی اور اپنے آپ بھی محفوظ رکھ سکیں گیں ۔مگر انہوں نے انکار کردیا کہ وہ اپنے بچوں کو نہیں چھوڑ سکتی ہیں ۔ہم نے دیکھا کہ وہ خود وہیں بڑھتے ہوۓ پانی میں کھڑی پانی اور دیگر اشیاء کو کمرے میں آنے سے روکنے کی ناکام کوشش کر رہی تھیں ۔رفتہ رفتہ پانی ان کی کمر تک پہنچ چکا تھا اور پانی کے زور سے ہماری چارپائیاں ہلنے لگی تھیں ۔انہوں نے ہماری چارپائیوں کو پانی میں کھڑے ہوکر مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا کہ کہیں پانی کے شدید دباوُ سے چارپائیاں گر نہ جائیں ان کے دوسرے ہاتھ میں ایک لکڑی کی چھڑی تھی جس سے و ہ پانی کے ساتھ بہہ کر آنے والے سامان کو ایک جانب کرتی جاتیں لیکن ہماری چارپائی کو ہمہ وقت مضبوطی سے پکڑے رکھا ۔ہم بچے اوپر بیٹھے خوف سے دیکھ رہے تھے کہ پانی میں سانپ اور کئی طرح کے خطرناک کیڑے مکوڑے بہہ کر آرہے ہیں لوگوں کے مویشی بھی پانی میں بہہ رہے تھے ۔اور امی جان ایک ہاتھ سے چارپائی پکڑے دوسرے ہاتھ سے ان سانپوں کو ہاتھ میں پکڑی لکڑی سے ہم سے دور کرنے کی کوشش کر رہی تھیں ۔ہم بار بار چلاتے امی پانی بڑھ رہا ہے ! آپ بھی اوپر چارپائی پر آجائیں لیکن انہیں معلوم تھا کہ چارپائی ان کا وزن برداشت نہیں کر پاۓ گی اور اگر چارپائی پر ان کی گرفت کمزور پڑی تو وہ ٹوٹ جاۓ گی انہیں تو اپنی جان سے زیادہ ہم بچوں کی زندگی عزیز تھی ۔پانی بڑھتے بڑھتے ان کی کمر سے بھی اوپر تک آگیا تھا ۔مگر انہوں نے حوصلہ نہ ہارا وہ اپنے بچوں کے لیے اس تیز ترین سیلابی ریلے سے نبردآزما تھیں جو اپنے ساتھ سب کچھ بہا کر لے جارہا تھا ۔وہ اس وقت تک اسی حالت میں پانی کی موجوں اور خطرناک سانپوں سے گھنٹوں اکیلی لڑتی رہیں جب تک کہ بہت سے ہمساۓ اور فوج کے امدادی دستے نہ پہنچے اور انہوں نے انہیں بھی چارپائی کے اوپر بیٹھا دیا مجھے یاد ہے کہ وہ اس طویل جدوجہد سے تقریبا” نیم بے ہوش ہو چکی تھیں ۔مگر مطمین تھیں کہ وہ اور ان کے بچے اب محفوظ ہو چکے ہیں ۔اس شدید سیلابی ریلے سے محفوظ رہنا واقعی کسی معجزے سے کم نہ تھا ۔ بعد میں یہ معلوم ہوا کہ اس سیلابی ریلے میں صرف بچے ہی نہیں بلکہ بہت سے بڑے لوگ بھی بہہ کر اپنی جانیں گنوا چکے تھے ۔ اس سیلاب کے دوران ایک بڑی تباہی گزر چکی تھی ۔چند گھنٹوں بعد اباجی بھی پریشان حال پتہ نہیں کتنی ہی مشکل اور دشواری سے ہم تک پہنچے تو ہمیں زندہ سلامت اور خریت سے دیکھ کر بہت خوش ہوےُ ۔اباجی ہمیشہ امی جان کی اس جرت اور بہادری کا ذکر کرتے تھے ۔ایک نازک اور کمزور عورت اپنے بچوں کو بچانے کے لیے کتنی مضبوظ ہو جاتی ہے صرف اس لیے کہ وہ ایک ماں ہوتی ہے ۔کہتے ہیں کہ ماں موت سے نہیں ڈرتی اسے مرتے وقت یہ ڈر ہوتا ہے کہ اس دنیا میں اس کے بچوں کو اس جتنا پیار کوئی نہیں دے گا ۔حضرت واصف علی واصف ؒ سے کسی نے پوچھا کہ ماں کتنی نمازوں کے برابر ہوتی ہے ؟ تو آپ نے فرمایا نمازوں کی بات نہیں ماں تو پورا دین ہوتی ہے۔ماں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ٹھنڈی چھاوں ہوتی ہے ۔ماں زندگی دیتی بھی اور زندہ رکھنے کی جدوجہد بھی کرتی ہے ۔ماں کے بغیر زندگی ادھوری ہوتی ہے اور دنیا میں ماں کا نعم البدل کوئی نہیں ہوتا ہے ۔دنیا کا ہر رشتہ اپنی محبت کے عوض کچھ نہ کچھ ضرور چاہتا ہے لیکن ماں ایک ایسے شجر کا نام ہے جو اولاد کو پھل بھی دیتی ہے اور ٹھنڈی چھاوں بھی فراہم کرتی ہے اور بدلے میں کچھ بھی طلب نہیں کرتی ۔اسکی کی اولاد کی زندگی اور خوشیاں ہی اس کے لیے سب کچھ ہوتی ہیں ۔ماں وہ ہستی ہے جس کی پیشانی پر نور ،آنکھوں میں ٹھنڈک ،الفاظ میں محبت ،آغوش میں سکون ،ہاتھوں میں شفقت اور پیروں تلے جنت ہوتی ہے ۔لوگ کہتے ہیں کہ کسی کے چلے جانے سے زندگی رک نہیں جاتی ! ! لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ لاکھوں کے مل جانے سے بھی اس ایک ماں کی کمی پوری نہیں ہو سکتی ! یہ تمام خصوصیات ماں کے علاوہ کسی شخصیت میں کیسے سماں سکتی ہیں ؟ ماں تو آخر ماں ہوتی ہے وہ پہچان لیتی ہے کہ اولاد کی آنکھیں سونے سے لال ہیں یا پھر رونے سے لال ہیں ؟و ہ اولاد کی خوشیاں اور دکھ آنکھوں سے پرکھ لیتی ہے ۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ماوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے مئی کی ہر دوسری اتوار کو “مادر ڈے ” منایا جاتا ہے ۔اس دن کو منانے کا مقصد محبت کے خالص ترین رنگ کے لیے ماں کے مقدس ترین رشتے کی عظمت واہمیت کو اجاگر کرنا ہوتا ہے اور ماں کے لیے عقیدت ،احترام اور محبت کے جذبات کو فروغ دینا ہے ۔ہمارا دین ہمیں پورے سال کے ہر ہر لمحے کو ماوں کے نام کرتا ہے اس لیے ضرورت اس بات کہ ہے کہ سال کا صرف ایک دن اس عظیم ہستی کے لیے مخصوص نہ کیا جاۓ بلکہ ہر روز ماں کے انمول رشتے کو خراج تحسین پیش کرکے اور اس کی خدمت کے ذریعے رب کائنات کی خوشنودی حاصل کی جاۓ کیونکہ ماں کی رضا ہی اللہ کی رضا ہوتی ہے ۔ماوں سے محبت ایک مشترکہ انسانی جذبہ ہے جسے صرف ایک ماں تک محدود نہیں کیا جا سکتا مائیں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں ۔ہواواں کی طرح ،روشنی کی طرح ،کسی خوشبو کی طرح ،کسی مذہب کی طرح اور تمام انسانی سرحدوں سے بہت آزاد ہوتی ہیں ۔اس لیے دنیا کی ہر ہر ماں کو سلام ہو ! جس کے قدموں میں ہمارے رب تعالیٰ نے جنت رکھ دی ہے ۔اللہ ہم سب کی ماوں کو سلامت رکھے آمین !
تیری خوشبو نہیں ملتی تیرا لہجہ نہیں ملتا
ہمیں تو شہر میں کوئی تیرے جیسا نہیں ملتا