تحریر: خالد غورغشتی
ماہ مقدس کا آخری عشرہ چل رہا ہے۔ ہر سو عید کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ عید کی خریداری کےلیے لوگ بڑے بڑے شاپنگ ہالز، مالز اور مارکیٹوں کا رخ کرتے ہیں۔ عید خوشی اور ایثار دونوں کے ملاپ کا نام ہے۔ اگر دونوں میں سے ایک کو بھی نکال دیا جائے تو اس تہوار کی حقیقی خوشی نہیں رہتی۔ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ جب ہم مخلوق خدا پر ایثار نہیں کرتے تو یہی پیسہ کیسے ہم سے راتوں رات مختلف طریقوں مثلاً بیماریوں، کھانوں اور عیاشی کے کاموں میں نکلتا ہے۔ جب ہم دو ہزار کی چیز دس ہزار میں نیو برانڈ کے نام سے خرید کر لاتے ہیں یہ پیسہ فضول خرچی کی صورت میں کہیں نہ کہیں نکل ہی تو رہا ہوتا ہے۔ جب ہم وہی چیز ایک دو دفعہ استعمال کرلیتے ہیں تو بعد میں سوچتے ہیں دو ہزار کی چیز ہی مہنگے برانڈ پر پیسے بہانے سے بہتر تھی یہ سچ ہے کہ کفایت شعاری نہ ہماری خصلت میں شامل ہے نہ ہی ضرورت مندوں اور سفید پوشوں کی مدد کرنا ہمیں اچھا لگتا ہے۔ ہمارے پڑوس کے کئی گھرانے ہر گزشتہ سال کے بوسیدہ کپڑے اور پرانے جوتے پہن کر عید گزار رہے ہوں گے اور ہم برانڈڈ کپڑوں اور جوتوں پہ پانچ ہزار کی جگہ پچاس ہزار لگا کر خوشیاں منارہے ہوتے ہیں۔ یاد رکھنا یہاں کوئی بھی نعمت ابدی نہیں، ایک نہ ایک دن سب نعمتوں کے ساتھ ہم بھی دستِ کفن میں چلے جائیں گے۔ یہ ساٹھ کی ہے اور وہ ہمیشہ کی۔ ہم جتنا بھی نعمتوں اور خوش حالیوں میں پڑے زندگی بسر کریں۔ اس دنیا سے بھلا کون خوشی خوشی سے ہر خواہش کو پورا کرکے گیا ہے۔ یہاں تو لوگ ارمانوں کے ڈھیر لے کر آئے اور خواہشوں کے سمندر میں بہہ گئے۔ سب میری میری کرتے خالی ہاتھ مرگئے اور بغیر جیب کے کفن میں ڈھل گئے۔ اسلام چونکہ مکمل ضابطہ حیات ہے اس لیے اس میں مسلم تو رہے مسلم غیر مسلموں کے بھی واضح حقوق بیان کیے گئے ہیں۔ تاریخی اوراق کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کیسے کیسے ظالم وجابر حکمران بادشاہ رعایا پر کہر ڈھاتے رہے آخر میں خود ذلیل وخوار ہو کر مرے۔ لیکن دین کی خاطر بھوک و پیاس اور اذیتیں اور قربانیاں دینے والے کیسے تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کےلیے امر ہوگئے۔ یہاں یہ سوال غور طلب ہے کہ جب اسلام نے ہمیں اِردگرد کے چالیس گھروں کے حقوق العباد کا خیال رکھنے کا اپنے گھر کی مانند حکم دیا تو کب تک ہمارے پڑوسی بھوک سے بلک بلک کر مرتے رہیں گے؟۔ آج اپنی فریجوں کے بند دروازے کھولیں ان میں موجود دس دس قسم کے کھانے گلنے سڑنے اور خراب ہونے سے بچا کر پڑوس میں بانٹنے کا معمول بنا لیجیے۔ اگر آپ کا دل مطمئن اور پرسکون نہ ہوا تو ہمیں ضرور مطلع کیجیے۔
سنیے تو…. گوشت اور چکن تو دو تین ماہ سے پڑا گل سڑھ رہا ہوگا اسے بھی ہوا لگائیے اور پڑوس میں بانٹ کر دارین حاصل کیجئے۔ دیتے وقت اگر آپ نے پوچھ ہی لیا کہ آپ کے پڑوسی نے کب آخری بار گوشت اور چکن پکایا تھا تو آپ کے پاؤں تلے سے زمین نہیں کہیں پوری فریج ہی نہ نکل جائے۔ عید کےلیے بینک اکاؤنٹ کو بھی ہوا لگائیے۔ دس دس کروڑ ڈالر سود پہ رکھنے کی بجائے اسے کرنٹ اکاؤنٹ میں رکھ دیجیے۔ یقیناً یہ مال یورپ کی دین ہے ورنہ ہم جگاڑیوں نے کون سا محنت مزدوری اور سو فی صد کسب حلال سے کمایا ہوتا ہے۔ اگر ہم انگریز کے ملکوں سے غضباً شدہ اور سود کی آمیزش سے بھرپور مال لا کر دس ہزار کی زکوٰۃ دے کر بڑے پھنے خان اور حاجی بنے پھرتے ہیں تو یاد رکھیں جن کے ساتھ امت کے اکابرین کی ساری عمر جہاد کرتے گزر گئی جن پہ ہم نے ہزاروں برس حکومت کی ہے۔ آج ان کی غلامی میں رہ کر چند سکوں کے عوض اپنے بے بس و لاچار مسلمان بھائیوں کو آنکھیں دکھا کر آپ کونسا اصلی اور نسلی ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔ ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے، یورپ جانے والے یا وہی ہوجاتے ہیں یا ان جیسے ہو جایا کرتے ہیں۔ فیصلہ خود کرلیں آج ہم کس تہذیب کے پیروکار ہیں؟ ایک صاحب کہنے لگے ہمارے اکابر لکھ گئے بھئی ہمیں تو اگلا نظام اسلام کا انقلاب مغرب زدہ افراد کے ہاتھوں ہوتا نظر آرہا ہے۔ ان سے اتنی سی التجا ہے کہ فلسطین پر کربلا برپا ہونے کے بعد آپ نے ان مغربی دیوانوں میں کس قسم کا انقلاب دیکھا۔ یہ ٹوٹکے کہیں اور آزما لیجیے۔ یہ مغرب زدہ یورپ کےلیے ماں باپ کو چھوڑنے کےلیے تیار ہیں۔ دوسری نہیں تو تیسری نسلیں ان کے مذہب پہ اپنا تن من اور دھن قربان کر چکی ہیں۔ ان یورپ زدہ ذہنوں نے انگریزوں کی خوشامد اور چاپلوسی کے سوا کون سا کارنامہ سر انجام دیا۔ ان کے باتھ روم، کچن اور صحن صاف کرکے کون سا فلسطین ان کے ہاتھوں فتح ہو چکا ہے۔آج ہماری آپسی چپقلشوں ، نفرتوں اور حقارتوں نے ہمیں نسل در نسل غلامانہ سوچ پہ مجبور کر دیا ہے۔ ہم نہیں کہتے ہیں کہ یورپ مت جاؤ، ہزار بار جاؤ مگر ان کے گیت گانے کی بجائے اپنے دیس اپنے مذہب کے گیت گاؤ۔ یورپ جاتے ہی لوگ اپنے ملک اپنے لوگوں کے بارے میں ایسے ایسے گھٹیا جملے کستے ہیں جیسے اللّٰہ کا دیا نہیں انگریز کا دیا مال کھا رہے ہوں۔
آپ اکثر دیکھتے ہوں گے کہ کچھ افراد یورپ گئے اور واپس آنا تو درکنار انھوں نے اپنے ملک کا نام لینا بھی گناہ سمجھا اور کئی نے تو یورپ جاتے ہی پاکستانی پاسپورٹ کو سب کے سامنے جلا دیا۔ لالچ، پیٹ پوجا اور چند دنوں کے سکون کی خاطر یہ بھول ہی گئے کہ یہ سب کچھ آپ کا ہی تھا انھوں نے برصغیر پر قبضہ جما کر آپ سے یہ سب کچھ ہتھیا لیا، اس وقت یورپ میں بھکاری ہی بھکاری تھے آج قبضہ مافیا نے ہمیں گداگر بنادیا تو خدارا قبضہ مافیا کے گن گانے کی بجائے اپنی اصل طاقت کو بحال کرو ۔ آؤ آپنے اردگرد لوگوں کو مالی طور پر مضبوط کریں، اپنے دین اپنے ملک کو خوش حال کریں۔