“عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ”

زندگی کے کچھ انتہائی غیر اہم واقعات بھی بعض اوقات کسی موڑ پر اہم ترین بن جایا کرتے ہیں ، حقائق وقت کے ساتھ ہی ازخود کھلتے چلے جاتے ہیں ۔
علم کے بارے میں جو کچھ آج تک سیکھ سکا ہوں تواپنی ذات کی حد تک یہ برملا کہہ سکتا ہوں کہ کچھ بھی نہیں سیکھ سکا ،علم کی جستجو ہی زندگی کی روانی ہےاور اس حوالے سے ابھی تک کچھ نہیں پتہ چل سکا ۔
مولا علی علیہ السلام کے اس فرمان پر تو ایمان کی حد یقین رکھتا ہوں کہ “علم اپنی جاہلیت کے اعتراف کا نام ہے ،جو یہ کہے کہ وہ مکمل عالم ہے وہ حقیقتا مکمل جاہل ہے جو یہ کہے کہ وہ آدھا عالم ہے وہ دراصل آدھا جاہل ہے اور جو یہ اعتراف کرے کہ وہ مکمل جاہل ہے وہی درحقیقت مکمل عالم ہے “علم ہی انسان کو عجزو نیاز کا راستہ دکھاتا ہے ۔علم کے شہر(ص) تک رسائی کے لئے علم کے در(ع) پر دستک دینی پڑتی ہے اور جب تک یہ مرحلے طے نہیں ہوجاتے کوئی علم کی روشنی کی سمت کا بھی اشارہ حاصل نہیں کرسکتا ،سب کچھ جاننے والے کبھی اپنے علم کا چرچا نہیں کرتے۔دنیا بھر کے کامیاب ترین دانشوروں ،محقیقن اور سائنسدانوں نے خود کو مائنس کرکے ہی سب کچھ حاصل کیا ہے ۔علم کی اہمیت اور افادیت کے بارے میں بہت کچھ لکھا پڑھا جارہا ہے مگر اس حوالے سے اپنی ذات سے سیکھنے والے ہی علم کی معراج تک پہنچنے میں کامیاب رہے ۔حدود کا تعین رکھنے والوں کے ظرف کا بھی اس میں کمال رہا ہے ۔اہل شعور شاعر نے بھی کہا ہے کہ

حد سے بڑھے جو علم تو ہے جہل دوستو

سب کچھ جو جانتے ہیں وہ کچھ جانتے نہیں

بہرحال احمد ندیم قاسمی نے تو کچھ جانتے ہوئے بھی جان بوجھ کر دھوکہ کھانے والوں کو فنکار قرار دیا ہے وہ کہتے ہیں کہ ۔

اسکے اندر کوئی فنکار چھپا بیٹھا ہے
جانتے بوجھتے جس شخص نے دھوکہ کھایا
اب یہاں ہم نے کچھ ایسے کامیاب لوگوں کے بارے میں بڑے صاحب الرائے ہستیوں سے سن رکھا ہے کہ دھوکہ دہی سے کامیابی حاصل کرنے والے ہی درحقیقت ناکام اور نامراد لوگ ہیں مگر وہ وقتی فائدے کی خاطر عمر بھر کی ناکامی سمیٹ لیتے ہیں ۔یعنی عقل ،دانش اور فہم وفراست کچھ اور ہے ،عیاری ،چالاکی اور ریاکاری کچھ اور ہے ۔علم کی بنیاد ہی خود اپنی ذات کو پرکھنے کی جستجو کا نام ہے
بابا بلھے شاہ بھی تو یہی اعلان کرتے نظر آتے ہیں کہ بلھا کی جاناں میں کون “
بلھے شاہ کے اس کلام کو ایک سکھ گلوکار نے انتہائی خوبصورت انداز میں ترنم دے کر نکھار دیا جسے میرے دوست رانا شمیم احمد خاں مرحوم بڑے انہماک سے سنتے رہتے تھےب،رانا شمیم احمد خاں کے ساتھی بھی چل بسے
وہ محفلیں ہی اجڑ گئی جہاں علمی بحثیں ہوا کرتی تھیں ،اب شہر میں ہنگامہ آرائی کی ویرانیاں ہیں ،ہم پھر سے اس شہر میں جیسے 50برس پیچھے چلے آئے ہیں کیونکہ ہمارا آغاز ہی کچھ اس شہر میں ایسے ہی احساس کے ساتھ ہوا تھا جو ہمیں ایک بار پھر اسی موڑ پر لے آیا ،شاعر نے بھی تو علم کی ابتدا اور انتہا کے حوالے سے کچھ اس انداز کا استدلال پیش کیا ہے کہ

علم کی ابتدا ہے ہنگامہ
علم کی انتہا ہے خاموشی

شہر کے حالات شائد نہیں بدلے میرے اپنے حالات مجھے گھیر کر اس موڑ پر لے آئے ہیں جہاں علم سے محبت کرنے والوں کی صرف کہانیاں باقی رہ گئی ہیں ۔صحافت ہی کے ساتھیوں کی ایک طویل فہرست اس وقت ذہن کی دیوار پر آویزاں ہورہی ہے جن میں شفقت تنویر مرزا ،ظہیر کاشمیری، منو بھائی ،عالی رضوی ،رفیق میر ،اعجاز رضوی ،احسان رانا ،فاتح فرخ سے لے کر ریاض صحافی تک بے شمار بچھڑنے والوں کے نام ابھرتے رہتے ہیں انکی زندہ رہنے والی گفتگو مجھے بہت کچھ کرنے کی ترغیب دیتی رہتی ہے ۔صحافت کے وہ اصول ہی نہیں رہے یہ سب چراغ حسن حسرت کے زمانے جیسی باتیں کرنے والے لوگ اب ناپید ہوگئے ہیں ،پرنٹ میڈیا کو چینلز نے متروک بنادیا ہے حالانکہ میرا دعویٰ تو آج تک یہی رہا کہ اخبارات وجرائد کی صحافت ہمیشہ زندہ رہنے والی ہے ،الیکڑانک میڈیا کا وقتی عروج دستاویزی تاریخ نہیں ہوسکتا ۔پرنٹ میڈیا کی افادیت اور اہمیت کبھی کم نہیں ہوگی۔پرنٹ میڈیا چونکہ میری پہلی محبت ہے اور اس لئے میرا یہ دعویٰ کوئی عقل کی بنیاد پر نہیں بلکہ یہ میرے عشق کی بنیاد پر کیا جانے والا اٹل دعویٰ ہے جس پر علامہ اقبال نے بھی مہر تصدیق ثبت کی ہے ،علامہ اقبال کہتے ہیں ۔

عقل کو تنقید سے فرصت نہیں

عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ

سید علی رضا نقوی

20/03/24

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-13-scaled.webp

articlecolumnsdailyelectionsgooglenewspakistansarzameentodayupdates
Comments (0)
Add Comment