آئی ایم ایف سے قرض کی ڈیل اور مہنگائی کے طوفان کا اندیشہ

اداریہ

پاکستان کی نئی حکومت کو مالیاتی بحران ٹالنے کے لئے پھر سے بڑےسخت فیصلے کرنا ہوں گے ۔
قبل ازیں 15مہینے کی ن لیگ ہی کی سربراہی میں قائم رہنے والی مخلوط حکومت نے کم و بیش آئی ایم ایف کی شرائط پر ہی پٹرول ،بجلی اور گیس کے ہوشربا نرخ بڑھانے سے مہنگائی کا سیل بیکراں لانے کا اہتمام کیا گیا
حکومت اگرچہ آئی ایم ایف کے ساتھ رجوع کرنے والے معاملے کو ملک کے دیوالیہ ہونے سے بچانے کاسبب بھی قرار دیا جارہا ہے
تاہم حکومت کے ناقدین اس معاملے کو معیشت کی خرابی کا سبب قرار دیتے رہے ۔
اب پھر آئی ایم ایف کے ساتھ ن لیگ کی سربراہی میں قائم ہونے والی نو منتخب مخلوط حکومت نے ڈیل کو حتمی شکل دینے کی خاطر مذاکرات مکمل کئے ہیں ،
جس کے نتیجے میں خسارے میں چلنے والے قومی اداروں کی نجکاری سمیت کئی اہم فیصلوں پر عملدرآمد کرنا ہے ۔
اس کے ساتھ کئی اشیا پر دی جانے والی سبسڈی ختم کرنے سمیت
ٹیکس نیٹ کا دائرہ وسیع کرنے کے امور بھی نمٹانے ہیں ۔
اسی تناظر میں حکومت نے پٹرول اور بجلی کے نرخوں میں اضافے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے ۔
اسی طرح اب سوئی سدرن گیس کمپنی نے یکم جولائی 2024 سے گیس کی قیمتوں میں 324 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو اضافے کے لیے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) سے درخواست کردی ہے
جس سے صارفین پر 79 ارب 63 کروڑ کا بوجھ پڑے گا۔
سوئی سدرن گیس کمپنی نے اوگرا سے نئی اوسط قیمت 1740.80 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو
مقرر کرنے کی درخواست کی ہے۔سوئی سدرن گیس کمپنی نے آئندہ مالی سال کے لیے
درخواست میں مجموعی طور پر 79 ارب 63 کروڑ روپے کے ریونیو شارٹ فال کا تخمینہ لگایا ہے
جس کے تحت مقامی گیس کی مد میں 56 ارب 69 کروڑ روپے جبکہ
آر ایل این جی کی مد میں 22 ارب 93 کروڑ 50 لاکھ روپے کے رینویو شارٹ فال کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
دوسری جانب اوگرا سوئی سدرن کی درخواست پر کل کراچی میں اور 20 مارچ کو
کوئٹہ میں سماعت کرے گا، اوگرا کی جانب سے سماعت کے بعد فیصلہ وفاقی حکومت کو بھجوایا جائے گا
اور وفاقی حکومت کی منظوری کے بعد اوگرا گیس کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کرے گا۔
واضح رہے کہ رواں مالی سال کے دوران اب تک گیس کی قیمتوں میں 2 بار اضافہ کیا جاچکا ہے۔
یکم نومبر 2023 سےگیس ٹیرف میں تقریبا 200 فیصد تک اور یکم فروری 2024 سےگھریلو
صارفین کے لیےگیس67 فیصد تک مزید مہنگی کی گئی ہے،
رواں مالی سال گیس کی قیمتوں میں اضافے کا گیس صارفین پر تقریبا 643 ارب روپے
کا اضافی بوجھ ڈالا جاچکا ہے۔
قبل ازیں قرضوں کے پیکج فائنلائز کرنے کے لیے آئی ایم ایف کی طرف سے
مختلف ٹیکسز میں اضافے پر زور دیا جاتا رہا ہے کیونکہ اسی صورت حکومت کی
آمدنی میں اضافہ اور قرضوں نیز ان پر سود کی ادائیگی ممکن ہے۔
آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت پاکستان میں بنیادی اشیا پر سیلز ٹیکس کی شرح بلند کی جاتی رہی ہے۔
قرضوں کے پیکج فائنلائز کرنے کے لیے آئی ایم ایف کی طرف سے مختلف ٹیکسز میں اضافے پر زور دیا جاتا رہا ہے
کیونکہ
اسی صورت حکومت کی آمدنی میں اضافہ اور قرضوں نیز ان پر سود کی ادائیگی ممکن ہے۔
آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت پاکستان میں بنیادی اشیا پر سیلز ٹیکس کی شرح بلند کی جاتی رہی ہے۔
نئے قرضوں کی بنیادی شرائط کے طور پر حکومت سے کہا گیا ہے کہ چینی سمیت
تمام بنیادی اشیائے خور و نوش پر ٹیکس کے حوالے سے دی جانے والی رعایت ختم کی جائے۔
تجویز پیش کی گئی ہے کہ حکومت کھانے پینے کی اشیا اور دواؤں پر کم از کم سیلز ٹیکس 18 فیصد کیا جائے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ماہرین نے نئی پاکستانی حکومت سے کہا ہے کہ 1300 ارب روپے کے ٹیکس لگائے۔
ان حالات میں عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ حالیہ ڈیل کے نتیجے میں نئی حکومت کو
بلاشبہ انتہائی سخت فیصلے کرنا ہیں ۔
جن کے نتیجے میں لازمی طور پر ہوشربا مہنگائی کا طوفان بھی آئے گا اور
پھر عوام کی چیخیں بھی نکلیں گی اس لئے غریبوں کو فوری ریلیف دینے کا بھی بہرطور اہتمام ہونا چاہئے ،
متوسط اور غریبوں پر مالیاتی بوجھ کم ڈالنے کیلئے فوری طور پر معاشی اصلاحات لانا بھی ناگزیر ہے
قوم کی حقیقی خوشحالی کی خاطر جس طرح کے انتخابی وعدے کئے گئے تھے اب ان پر عملدرآمد بھی کرنا پڑے گا ۔

19/03/24

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-12-scaled.webp

articlecolumnsdailyelectionsgooglenewspakistansarzameentodayupdates
Comments (0)
Add Comment