حکومت سازی کے عمل میں تاخیر اور بڑی جماعتوں کی صدر پر تنقید

اداریہ

ملک میں عام انتخابات کے بعد اب حکومت سازی کا مرحلہ درپیش ہے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی دیر ہے
معاملات طے ہیں ۔دوسری طرف صدر عارف علوی کے اجلاس بروقت نہ بلانے پر پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے کڑی تنقید کی ہے ۔
فروری ۸ کو ہونے والے انتخابات کے بعد دھاندلی کے الزامات کے درمیان الیکشن کمیشن آف پاکستان اب 9 مارچ تک صدر مملکت کے عہدے کے لیے انتخابات کرانے کی تیاری کر رہا ہے۔
صدر کے انتخاب کا مرحلہ آدھے سینیٹرز کی 6 سالہ مدت کی تکمیل کے بعد ریٹائرمنٹ سے صرف دو دن قبل مکمل کیا جائے گا۔
پیپلز پارٹی کے ایک سینئر رہنما نے کہا کہ موجودہ سینیٹرز چاروں صوبائی اسمبلیوں کے قیام کے بعد صدر کا انتخاب کریں گے،صدر کا انتخاب 9 یا 10 مارچ کو ہو سکتا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی قیادت میں وفاق میں مخلوط حکومت بنانے کے لیے بننے والے 6 جماعتی اتحاد نے آصف علی زرداری کو ملک کے اعلیٰ آئینی عہدے کے لیے متفقہ امیدوار بنانے کا اعلان کر رکھا ہے۔
آصف زرداری اس سے قبل فوجی حکمران پرویز مشرف کے استعفیٰ کے بعد ستمبر 2008 سے 2013 تک صدر رہ چکے ہیں۔آئین کے آرٹیکل 41(4) کے مطابق’صدر کا انتخاب صدر کی میعاد ختم ہونے سے 60 دن سے پہلے اور مدت ختم ہونے کے 30 بعد نہیں ہونا چاہیے،
اگر قومی اسمبلی تحلیل ہونے کی وجہ سے مقررہ مدت کے اندر صدر کا انتخاب نہ ہو سکے
تو عام انتخابات کے 30 دن کے اندر اندر کرایا جائے گا۔عام انتخابات 8 فروری کو ہوئے
اس لیے 100 رکنی سینیٹ میں سے نصف کی ریٹائرمنٹ سے صرف 2 روز قبل صدارتی انتخاب 9 مارچ تک کرانا ضروری ہے۔
سینیٹ کے انتخابات بھی مارچ کے پہلے ہفتے میں ہونے تھے لیکن قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں تاخیر کے باعث سینیٹ انتخابات اب مارچ کے آخری یا اپریل کے پہلے ہفتے میں ہوں گے ۔
جس کا مطلب ہے کہ ایوان بالا کچھ مدت کے لیے غیر فعال اور نامکمل رہے گا۔
پیپلز پارٹی کے ایک رہنما کے مطابق آئندہ صدارتی انتخابات کے تناظر اور آصف زرداری کی جیت کو یقینی بنانے کے لیے پارٹی نے اپنے دو سینیٹرز
نثار کھوڑو اور جام مہتاب ڈہر کو سندھ اسمبلی میں بطور ایم پی اے حلف اُٹھانے سے روک دیا۔صدر مملکت کے انتخاب کے فارمولے کے مطابق ایک سینیٹر کا ایک ووٹ شمار کیا جاتا ہے
جبکہ سندھ اسمبلی میں تقریباً چار ووٹوں کے برابر ایک ووٹ ہوگا،
اس طرح آصف زرداری کو صدارتی انتخابات میں فائدہ ہوگا۔
موجودہ صدر ڈاکٹر عارف علوی کی 5 سالہ مدت گزشتہ سال 9 ستمبر میں پوری ہوچکی
اور وہ توسیع شدہ مدت پر عہدے پر ہیں۔
آئین کا آرٹیکل 44(1) کہتا ہے کہ صدر اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کے دن سے 5 سالہ مدت تک
اپنے عہدے پر فائز رہے گا
لیکن وہ اس عہدے پر اس وقت تک فائز رہے گا جب تک کہ اس کی جگہ
کسی دوسرے شخص کا انتخاب نہیں کرلیا جاتا۔
ڈاکٹر عارف علوی 5 سالہ مدت پوری کرنے والے ملک کے چوتھے جمہوری طور پر منتخب صدر ہیں
اس سے قبل 3 صدور جنہوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی
ان میں چوہدری فضل الٰہی تھے جو ملک کے پانچویں صدر تھے وہ 1973 سے 1978 تک اس عہدےپر فائز رہے
آصف علی زرداری 11ویں صدر تھے جو 2008 سے 2013 تک عہدے پر رہے
جبکہ 12 ویں صدر ممنون حسین 2013 سے 2018 تک اس عہدے پر براجمان رہے۔
ڈاکٹر عارف علوی مسلسل تیسرے صدر ہیں جنہوں نے اپنی مدت پوری کی
اور ملک کے پہلے صدر ہیں جنہیں ’الیکٹورل کالج‘ نامکمل ہونے کی وجہ سے توسیع دی گئی
صدر کا الیکٹورل کالج قومی اسمبلی، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں پر مشتمل ہے۔
(ن)لیگ اور پیپلز پارٹی کے بالترتیب 69 فیصد اور 57 فیصد ارکان اپنی مدت
پوری کرنے کے بعد 11 مارچ کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔
لیکن 8 فروری کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی دونوں سینیٹ میں
یقینی طور پر اپنی تعداد میں اضافہ کرنے میں کامیاب ہو جائینگی،
اگر پی ٹی آئی سینیٹ انتخابات سے قبل انٹرا پارٹی انتخابات کرانے میں ناکام رہی تو
اسے یقینی طور پر نقصان ہوگا
اور اسے ایوان بالا میں نمائندگی حاصل کرنے کے لیے سنی اتحاد کونسل
(ایس آئی سی) پر انحصار کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس وقت سینیٹ کی مجموعی تعداد 100 ہے جس میں چاروں صوبوں کے 23، سابقہ فاٹا
اور اسلام آباد کے چار چار اراکین شامل ہیں۔
صوبوں کے لیے مختص کردہ 23 نشستوں میں سے 14 جنرل نشستیں، 4 خواتین، 4 ٹیکنوکریٹس
اور ایک اقلیتی رکن کے لیے مختص ہے۔اس مرتبہ صرف 96 اراکین ایوان بالا میں ہوں گے
جبکہ 25ویں آئینی ترمیم کے تحت خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد
قبائلی علاقوں کی نمائندگی ختم ہو جائے گی۔
اس مرتبہ سینیٹ کے انتخابات میں 48 نئے سینیٹرز منتخب ہوں گے
جن میں چاروں صوبوں سے جنرل اور ٹیکنوکریٹس کی نشستوں پر 11،
اسلام آباد سے 2 جب کہ پنجاب اور سندھ سے 2 اقلیتی ارکان ہوں گے۔
مسلم لیگ (ن) کے رانا مقبول احمد کے انتقال، پی ٹی آئی کے شوکت ترین اور
بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے انوار الحق کاکڑ کی جانب سے نگران وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد استعفیٰ دینے کی وجہ سے ایوان کے ارکان کی تعداد اس وقت 97 ہے۔
سینیٹر کی مدت 6 سال ہوتی ہے، ان میں سے آدھے اراکین ہر 3 سال بعد ریٹائر ہو جاتے ہیں
اور ان کی جگہ نئے اراکین کے لیے انتخابات ہوتے ہیں۔
ان حالات میں حکومت سازی کا عمل مکمل ہورہا ہے ۔
بڑی جماعتیں ملکر قومی حکومت تشکیل دینے کی راہ استوار کریں گی
تو ملک کی تعمیر و ترقی سے خوشحالی کے راستے بھی ضرور نکلیں گے ۔

27/02/24

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/02/p3-20-1-scaled.jpg

articlecolumnsdailyelectionsgooglenewspakistansarzameentodayupdates
Comments (0)
Add Comment