تعلیم ایک مثبت تبدیلی کا نام ہے۔ جو کئی سالوں کے لمبے عرصے پر محیط ہوتی ہے۔
اس میں سچی لگن، صدیوں کی ریاضت او رجہدِ مسلسل شامل ہے۔
جب کسی معاشرے کے لوگ مل کر تعلیم کا دامن تھام لیتے ہیں تو وہ دقیانوسی سوچوں کے
بت کدے توڑنے میں ضرور کامیاب ہوتے ہیں۔
اس تبدیلی میں سب سے بڑا عمل ایک نسل کی سوچ کو تبدیل کر کےا اسے نئے دور سے ہم آہنگ کرنا ہے
اور ترقی پذیر اذہان کو نئی امیدوں کے ساتھ صبحِ نو کی نوید دینا ہے۔
ظلمتوں کے دور میں جب کوئی جگنو تاریکیوں سے نبرد آزما ہوتا ہے تو سحر کا اجالا پھوٹ کرہی رہتا ہے،
پھر آفتاب کی مرمریں کرنیں نئے گلوں کو تازگی کا پیغام دیتی ہیں۔
کچھ ایسا ہی تعلق میرے شہر ٹمن ضلع تلہ گنگ کی پیاری سرزمین سے تعلیم کی شمعیں جلانے والوں کا رہا ہے۔
میں اپنے ٹمن میں محبانِ تعلیم کو سلام پیش کرتی ہوں
جنہوں نے گلی محلوں میں اس وقت پرائیویٹ تعلیمی ادارے قائم کر کہ لوگوں کو انفرادی تعلیم کا شعور دیا
جب یہاں کے لوگ تعلیم کی بڑی تبدیلی سے ناواقف تھے۔
ہم سب جانتے ہیں کے ہمارا تعلیمی نظام دو بڑے دھڑوں یعنی نجی و سرکاری اسکولوں میں تقسیم ہے
اور نجی تعلیمی ادارے کسی بھی معاشرے کی صحت مندانہ بنیادوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
مگر ایک ایسا معاشرہ جہاں لوگ ابھی نجی نظام سے ناواقف ہوں تو اُس دور میں انھیں
نجی تعلیم کا شعور دلانا بھی ایک محاذ فتح کرنے کے برابر ہے اور
یہ کام 90ء کی دہائی سے وہ نجی تعلیمی ادارے یہاں سرانجام دے رہے ہیں
جن کی وفا کی خوشبو یہاں کے گلی کوچوں میں موجود ہے۔
یہ نجی تعلیمی ادارے لوگوں نے انتہائی کم وسائل کے باوجود سچی لگن سے اور محنت سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
فخر کی بات تو یہ ہے کے میرے شہر ٹمن کے لوگوں کی تعلیم سے محبت کبھی ختم نہیں ہوئی
انھیں گلی محلوں میں قائم اسکولوں سے پڑھ کر نکلنے والے طلباء و طالبات ڈاکٹرز بنے،
فوجی آفیسرز بنے، اساتذہ بنے، وکیل بنے اور کئی دیگر شعبہء ہائے زندگی میں اعلیٰ کامیابیاں حاصل کیں۔
الحمد للہ اس ٹمن شہر کی خدمت پر ہم نے نیشنل و انٹرنیشنل ایوارڈز، اعزازات و میڈلز بھی حاصل کیے
ہم نے یہاں بچیوں کو اُس وقت کمپیوٹر کی تعلیم دی جب یہاں ٹیکنالوجی کے نام سے بہت کم لوگ واقف تھے
ہم نے لوگوں کو ماں اور بچے کی تعلیم کا شعور دیا، اور آج افسوس اس بات کا ہے کہ
کچھ جدیدمکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ گلی محلوں میں قائم اسکولوں کو کم تر سمجھتے ہیں۔
میرا سوال یہ ہے کے بات کو ذرا محبت سے منفرد انداز سے بھی تو کیا جا سکتا ہے
کہ ”یہ گلی محلوں میں قلیل سرمایہ کاری سے قائم اسکولز نسلِ نو کے رہبر ہیں،
یہ اسکولز یہاں والدین کو نجی تعلیم کا شعور دلانے والی اولین درسگاہیں ہیں۔
یہ اسکولز ہمارے شہرٹمن کے محسن ہیں جنہوں نے اس شہر کی تاریخ بدلی ہے۔”
میں یہاں پر ایک بات قابلِ عرض کرتی چلوں کے تاریخ گواہ ہے اب تک جتنے بھی اسکول
گلی محلوں میں بلکے اس شہر کے دل میں قائم ہوئے وہ ہی اسکولز یہاں نجی تعلیم کو فروغ دینے والے اولین ادارے ہیں۔
ان اداروں کو موجودہ قائم تعلیمی اداروں سے موازنہ کرنے کی بجائے شکریہ، عزت اور محبت کی نگاہ سے دیکھا جاناچاہیے۔
ہمیں اس بات کی خوشی ہے کے ہمارے شہر کے بچوں اور بچیوں کے لیے
باہر سے آ کر لوگوں نے سرمایہ کاری کی، جدید سہولتوں سے آراستہ تعلیمی ماحول فراہم کیا۔
ہم ان اداروں کا خیر مقدم کرتے ہیں اور انھیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
مگر کسی بھی ادارے کا قیام دوسرے اداروں کی تحقیر کرنا نہ ہو بلکہ
مثبت انداز میں مقابلے کی فضا پیدا کرتے
ہوئے آگے بڑھنا ہو۔
میں اپنے شہر کے محسنوں کو فراموش نہیں کر سکتی جنہوں نے چھوٹے چھوٹے اسکول قائم کر کے آج والدین کو اس مقام تک پہنچایا کے وہ اپنے بچوں اور بچیوں کو اچھے اداروں میں تعلیم دینے پر آمادہ ہیں۔
ہمارے شہر ٹمن کی سرزمین آج سرسبز و شاداب اس لیے ہے کہ
یہاں تعلیم کے قدردانوں نے کئی دہائیوں سے اسے اپنے لہو سے سینچا ہے۔
میں دنیا میں جہاں بھی،جس جگہ بھی، کسی بھی اسٹیج پر کھڑی ہوں گی
تو اپنے علاقے کے ان تمام اساتذہ کو سلام پیش کروں گی جنہوں نے اس شہر کی تاریخ بدلی
اور ہمیں اس عزت سے نوازا کے ہم دنیا میں اپنا منفردمقام بنانے کے قابل ہوئے
پروفیسر ڈاکٹر صائمہ جبین مہکؔ
کُھلی بات
23/02/24
https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/02/p3-17-1-scaled.jpg