دنیا کو ہمیشہ وہی قومیں یاد رہتی ہیں جو مزاحمت کرتی ہیں جن کے فیصلے وقتی مصلحتوں سے نہیں، ابدی اصولوں سے جڑے ہوتے ہیں۔ جن کی نگاہیں اپنے وجود سے زیادہ اپنے موقف کی حفاظت کرتی ہیں۔ ایسی ہی ایک تاریخ ساز شخصیت تھے شاہ فیصل بن عبدالعزیز جنہوں نے مغرب کے ایوانوں میں بیٹھ کر نہ صرف فلسطین کا مقدمہ لڑا بلکہ سچائی کی ایک ایسی علامت بن گئے جسے دبانے کی ہر کوشش ناکام رہی۔
ڈاکٹر معروف الدولیبی کی یادداشتوں میں ایک واقعہ محفوظ ہے، جب شاہ فیصل فرانس کے صدر شارل ڈیگال سے ملاقات کے لیے پیرس پہنچے۔ ڈیگال نے اسرائیل کو “ایک مسلمہ حقیقت” قرار دیا اور عربوں سے توقع کی کہ وہ اس نئی حقیقت کو تسلیم کریں۔ اس پر شاہ فیصل نے وہ تاریخی جواب دیا جو آج بھی سیاسی و اخلاقی اصولوں کا مینار ہے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ جب ہٹلر نے فرانس پر قبضہ کیا تھا تو وہ بھی ایک حقیقت تھی۔ پوری فرانس کی حکومت ہتھیار ڈال چکی تھی، صرف ڈیگال پیچھے ہٹے اور مزاحمت کرتے رہے۔ اگر وہ اس “ہو چکی حقیقت” کو مان لیتے تو آج فرانس کی کوئی خودمختاری نہ ہوتی۔
اسی گفتگو میں جب ڈیگال نے یہودیوں کے تاریخی دعوے کا ذکر کیا تو شاہ فیصل نے بائبل سے دلیل دے کر بتایا کہ یہودی تو مصر سے حملہ آور بن کر آئے تھے۔ فلسطین عرب کنعانیوں کی سرزمین تھی۔ پھر اگر تاریخی قبضے ہی دلیل بنیں تو دنیا کا نقشہ الٹ دینا پڑے گا۔ رومیوں کو فرانس واپس کرنا پڑے گا۔ عربوں نے تو دو سو سال تک جنوبی فرانس پر حکومت کی، تو کیا وہ آج فرانس کا مطالبہ کریں.
اور پھر شاہ فیصل نے وہ جملہ ادا کیا جس نے مغربی تکبر کو تہذیب کے آئینے میں دکھا دیا.
“پیرس میں 150 سے زائد سفارت خانے ہیں۔ اگر ان کے بچوں میں سے کوئی یہاں پیدا ہو اور کل سربراہ بن جائے، تو دعویٰ کرے کہ پیرس ہمارا ہے، تو بیچارہ پیرس، پتا نہیں کس کا ہو جائے گا…”
یہ جملہ فقط ایک تمسخر نہ تھا، یہ مغرب کی اس دوہری سوچ پر ایک کاری ضرب تھی جو ہر اصول کو طاقت کے ترازو میں تولتی ہے۔
اور آج برسوں بعد جب ایران اور اسرائیل کے درمیان نیا معرکہ سر اٹھا رہا ہے تو تاریخ ایک بار پھر دہرا رہی ہے۔
اسرائیل نے فلسطین پر قبضہ کیا، جارحیت کی نسل کشی کی، بستیوں کو مٹایا، اور اب اُس کے خلاف اگر ایران لب کشائی کرتا ہے یا مزاحمت کی کوئی تیاری کرتا ہے، تو پوری دنیا میں طوفان برپا ہو جاتا ہے۔ میڈیا، سفارت خانے، اقوام متحدہ، سب جاگ جاتے ہیں مگر جب غزہ میں بچوں کی لاشیں اٹھتی ہیں جب عورتیں چیخ چیخ کر انسانیت کو پکارتی ہیں، تو سناٹا چھا جاتا ہے۔
آج ایران اور اسرائیل کے درمیان جو نیا تناؤ جنم لے رہا ہے، وہ صرف دو ممالک کا مسئلہ نہیں، یہ مشرق وسطیٰ کی تقدیر کا سوال ہے۔ ایک طرف اسرائیل ہے جسے امریکہ اور یورپ کی پشت پناہی حاصل ہے دوسری طرف ایران ہے جس کے بیانیے کو دنیا دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے پر تُلی ہوئی ہے۔
مگر شاہ فیصل کا جملہ آج بھی گونجتا ہے کہ حقیقت طاقت سے نہیں، حق سے بنتی ہے۔ دنیا اگر طاقتور کا ظلم تسلیم کر لے تو یہ انصاف نہیں بزدلی ہے۔
شاہ فیصل نے ایک بار پھر ثابت کیا تھا کہ وہ صرف سعودی عرب کے بادشاہ نہیں پوری امت مسلمہ کی آواز تھے۔ انہوں نے جب امریکہ کو کہا تھا کہ اگر اسرائیل کو ایک قطرہ تیل بھی گیا تو ہم اپنی سپلائی بند کر دیں گے، تو امریکہ کی سڑکوں پر قطاریں لگ گئیں۔ لوگ نعرے لگا رہے تھے:
ہمیں اسرائیل نہیں، تیل چاہیے!
اور پھر یہی وہ جرأت یہی وہ استقلال تھا جس نے ان کی جان لے لی۔ وہ طاقتوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہو گئے تھے، کیونکہ وہ طاقت کے خلاف صرف الفاظ نہیں، فیصلے بھی رکھتے تھے۔
آج اگر مسلم دنیا شاہ فیصل کے بیانیے کو پھر سے زندہ کر لے تو شاید نہ صرف فلسطین بچ سکتا ہے، بلکہ ایران و اسرائیل کی ممکنہ جنگ بھی ٹالی جا سکتی ہے۔
مگر افسوس! آج کے بادشاہ تیل بیچنے کے لیے سر جھکاتے ہیں اور کل کا بادشاہ تیل روکنے کے لیے سر بلند رکھتا تھا۔
شاہ فیصل کا جملہ ایک بار پھر زندہ ہوتا ہے، مگر اس بار شاید صرف پیرس کے لیے نہیں، بلکہ بیت المقدس، دمشق، تہران، اور ریاض سب کے لیے ہے.
بیچارہ مشرق پتا نہیں کس کا ہو جائے گا…