مجید امجد کی نظم نگاری۔۔۔۔

روبرو۔۔۔۔محمد نوید مرزا

اردو نظم کے بے مثال شاعر مجید امجد کو اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے 60 برس سے زائد کا عرصہ گذر چکا ہے لیکن اپنی جدید آہنگ سے آراستہ اور منفرد لہجے کی شاعری کی وجہ سے وہ دنیائے ادب میں زندہ و جاوید ہیں۔شاعر مشرق علامہ اقبال کے بعد اردو نظم کو جن جدید اور توانا لہجے کے شعراء کے حوالے سے جانا پہچانا جاتا ہے ،ان میں ایک نام مجید امجد کا بھی ہے۔اردو نظم کو اعتبار بخشنے میں مجید امجد کا نام ہمیشہ احترام سے لیا جاتا ہے۔
مجید امجد کی زندگی میں ان کا ایک مجموعہ شائع ہوا تھا،تاہم بعد از مرگ تاج سعید اور ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے ان کی کلیات مرتب کی۔مجید امجد نے عمدہ نثر بھی لکھی اور ڈاکٹر افتخار شفیع نے ان کی کلیات نثر مرتب کی ہے ۔اس کتاب میں ان کی تنقید نگاری،ترجمہ نگاری،ادب اطفال اور کالم نگاری پر مشتمل تحریریں شامل ہیں۔تاہم ان کی بطور نظم نگار شناخت قائم ہوئی اور آج بھی وہ نظم نو کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں۔مجید امجد کی نظم میں فنی مہارت کے ساتھ ساتھ زبان و بیان کی خوبصورتی اور کرافٹ ایک نمایاں وصف ہے۔بقول ڈاکٹر وزیر آغا،،مجید امجد ایک تروتازہ اور سبز و شاداب شاعر تھے۔اقبال کے بعد ابھرنے والے وہ واحد شاعر ہیں جنھوں نے سوچ زبان اور لہجے کی حد بندیوں کو توڑ کر اپنی انفرادیت کا بھر پور احساس دلایا ہے،،
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ مجید امجد ایک منفرد لہجے کے شاعر تھے،ان کی نظم نگاری میں ایک عجیب طرح کی جادو گری ہے کہ پڑھنے والی ان کی نظموں کی سطر سطر میں گم ہو جاتا ہے،تاہم عام قاری کے لئے وہ ایک مشکل شاعر ہیں۔مجید امجد کی شاعری کے مفاہیم جاننے کے لئے قاری کو ذہنی و شعوری طور پر شاعر کی سوچ اور علامات و تشبیہات کی گہرائی میں اترنا پڑتا ہے۔یہ وہ شاعری ہے جو ماضی،حال اور مستقبل کا احاطہ کرتی ہے بقول ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا ،،مجید امجد اردو نظم کے ایک انتہائی اہم اور منفرد لہجے کے شاعر ہیں۔ان کا کلام معیار اور مقدار دونوں اعتبار سے بے مثال ہے۔جتنا تنوع ان کے ہاں پایا جاتا ہے وہ اردو کے کسی جدید شاعر میں موجود نہیں۔ان کی تقریباً ہر نظم مختلف موضوع اور مختلف ہیت میں تخلیق ہوئی ہے،،
اردو کے یہ بے بدل نظم گو شاعر 29 جون 1914ء کو جھنگ میں پیدا ہوئے اور 11 مئی 1974ء کو ساہیوال میں انتقال کر گئے۔مجید امجد کی ساری زندگی پریشانیوں میں گذری ۔والد نے دوسری شادی کر لی تو ماں انھیں لے کر ننھیال آگئی تھیں۔ان کے نانا میاں نور محمد ایک عالم فاضل انسان تھے۔مجید امجد نے انہی سے عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی ۔جواں عمری میں پہنچے تو والدہ وفات پا گئیں۔ایف تک تعلیم جھنگ سے حاصل کی۔پھر لاہور آگئے اور اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے گریجویشن کی۔بی اے کے بعد جھنگ چلے گئے اور ایک نیم سرکاری ہفت روزہ ،عروج کے مدیر منتخب ہو گئے۔اس زمانے میں برطانوی سامراج کے خلاف نظم قیصریت لکھنے پر اخبار سے نکال دئیے گئے۔یہ نظم عروج کے اولین صفحے پر شائع ہوئی تھی ۔مجید امجد کو 1944ء میں انسپکٹر سول سپلائر کی ملازمت مل گئی۔جہاں سے ترقی پاکر وہ اسسٹنٹ فوڈ کنٹرولر بن گئے لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی زندگی خاصی مشکلات کا شکار ہوگئی۔اہلیہ سے علیحدگی اور اولاد سے محرومی کا دکھ انھیں اندر سے کھا گیا اور کسی وجہ سے ان کی پینشن بھی رک گئی۔نوبت فاقوں تک پہنچ گئی اور اسی اذیت اور مصیبت میں 11 مئی 1974ء کو وہ فرید ٹاؤن ،ساہیوال میں اپنے کوارٹر میں مردہ پائے گئے۔ان کی تدفین جھنگ میں ہوئی اور نظم کے اتنے بڑے شاعر کے جنازے میں بھی بہت کم لوگ شریک ہوئے۔شاید اسی لئے انھوں نے کہا تھا۔۔۔

میں روز ادھر سے گذرتا ہوں کون دیکھتا ہے
میں کل ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا

مجید امجد کی شخصیت اور فن پر کئی مقالے لکھے کا چکے ہیں،کئی رسائل ان کے حوالے سے خصوصی نمبر شائع کر چکے ہیں۔جس میں مرحوم اشرف سلیم کی طرف سے شائع کردہ دستاویز کا مجید امجد نمبر بھی ایک اہم نمبر ہے۔لیکن زندگی میں ہم نے مجید امجد کو کیا دیا۔فن کار جب بستر مرگ پر ہوتا ہے تواس کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔اسی لئے احمد ندیم قاسمی صاحب کہہ گئے ہیں۔۔۔۔

عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات ہے دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
مجید امجد کی کتب میں شب رفتہ،شب رفتہ کے بعد،کلیات شاعری اور کلیات نثر شامل ہیں۔

Comments (0)
Add Comment