کسی نے کیا خوب کہا ہے ع۔یہ دنیا ہے اس دنیا میں حالات بدلتے رہتے ہیں۔ اسی طرح اچھے اور برے دنوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے اور اسی آنے جانے میں زندگی تمام ہوجاتی ہے اور بقول شاعر ( لازم ہے زمانے پہ کرے قدر ہماری۔۔۔ہم لوگ قمر لوٹ کے آیا نہیں کرتے) شاید جانے والے واپس آنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے ہوں گے کیونکہ زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹنا پڑتی ہے اور یہاں رہتے ہوئے خون پسینہ ایک کرنا پڑتا ہے۔ اپنوں کے لئے دن رات ایک کرنا شرط اول ہے اور غیروں کے حوالے سے تو پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ہوشیاری اور دانشمندی بہت ہی ضروری ہے۔ یہاں سارے کام دعاؤں سے نہیں ہوتے۔ دعائیں ویسے بھی سب کے ساتھ ہوتی ہیں۔ اللہ تعالی کا ایک اپنا نظام ہے اور اس کو کہتے ہیں بے مثل اور بے نظیر نظام۔ نظام فطرت کی علیحدہ ایک کیمسٹری ہے۔ بھوک کی حالت ہو، موسمی تغیرات سے بچنے کا معاملہ ہو یا فطرت کے جان دار کرداروں سے الجھنے کا معاملہ ہو ایسے حالات میں اللہ تعالی کا دیا ہوا دماغ ہی کام آتا ہے اور بسا اوقات تو بات سمجھ سے بہت ہی بالا تر ہوجاتی ہے۔ حضرت خضر علیہ السلام کو ایک نوجوان لڑکے کو مارنا پڑتا ہے۔ کسی صحیح سلامت کشتی میں سوراخ کرنا پڑتا ہے اور کبھی بنی بنائی دیوار کو گرانا پڑتا ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ اللہ کے بھید نرالے ہیں اور بسا اوقات انسان سارے وسائل اور حیثیتوں کے باوجود مجبور محض دکھائی دیتا ہے۔ افراد کی بات کرنا اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ افراد سے ہی اقوام بنتی ہیں اور ہر شخص کا کوئی نہ کوئی تو کردار مالک ارض وسماء نے رکھا ہے اور ہر کردار کے پیچھے ایک پیغام ہے اور اسی پیغام سے ہر آنے والے دور کے افراد نے اپنی کہانی آگے بڑھانی ہے گویا کہ زندگی ایک گاڑی ہے اور اس کے مسافر آتے جاتے رہتے ہیں اور جاتے ہوئے آنے والوں کو کچھ نہ کچھ کہہ ضرور جاتے ہیں
ہم عمر، ہم جماعت، ہم خیال اور اگر کوئی کسی کا ہم راز بھی ہو تو زندگی میں اس سے بہتر وقت کس کے ساتھ گزارا جا سکتا ہے۔ محمد محسن کی اور میری عمر میں کوئی تین چار مہینوں کا فرق تھا میں بڑا ضرور تھا لیکن سنجیدہ، ذہین اور سگھڑ وہ زیادہ تھا۔ ہم دونوں کچی پکی سے لے کر دسویں تک ہم جماعت بھی تھے۔ ہر وقت اکٹھے تو رہتے ہی تھے سکول میں ایک دن ہی داخل ہوئے۔ شروع میں ہم ایک بوری پر بیٹھتے تھے اور وہ بوری بھی ہماری ایک ہی ہوتی تھی جو ہم گھر سے لے کر جایا کرتے تھے اور واپسی پر اس کو گھر لا کر رکھ دیتے تھے کبھی وہ اس بوری کو اٹھا لیتا تھا اور کبھی میں اپنے کندھے یا سر پر رکھ کر لے آتا تھا۔ اس کے بعد بینچ پر بیٹھنا نصیب ہوا اور وہ بینچ بھی ہمارا اکٹھا تھا بلکہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کچھ کتابیں بھی مشترک تھیں استاد بھی مشترک تھےاس کو کہتے ہیں اشتراک بلکہ بات یہاں تک ختم نہیں ہوتی ہے ہم نے اساتذہ سے ماریں بھی برابر کی کھائی ہیں تاہم انیس بیس کا فرق ضرور ہوگا کیونکہ وہ ریاضی کے مضمون میں غیر معمولی کارکردگی دکھاتا تھا اور اعداد وشمار کی کہانی میری سمجھ سے بالا تر تھی میں تو چار پائی پر لیٹ کر شہتیر اور بالے گننے شروع کرتا تھا اور بالآخر کنفیوز ہو کر یہ کام کل پر موخر کردیتا تھا لیکن میرے مذکورہ کلاس فیلو آج کا کام کل پرنہیں چھوڑتے تھے اور اسی وجہ سے ریاضی کے مضمون میں سو بٹا سو نمبر لیتے تھے اور سائنس کے مضامین کے لئے سائنسی طریقہ کار کے حساب سے سوچتے تھے اس لئے وہ مجھ سے ان مضامین میں بھی زیادہ نمبر لے جاتے تھے اور میرے ہم راز اس لئے تھے کہ وہ اپنے زیادہ نمبروں پر اتراتے نہ تھے اور جب میں اپنے کم نمبر والد محترم کے سامنے بڑھا چڑھا کر بیان کرتا تھا تو وہ خاموشی اختیار کرتے تھے اور ان کی وجہ سے میرا بھرم رہ جاتا تھا۔ شام کے وقت ہم فٹ بال بھی اکٹھا کھیلتے تھے اور کھیل کا میدان اپنی نوعیت کا منفرد میدان تھا جس میں کھیل کے دوران اتنی مٹی اڑتی تھی کہ فٹ بال کو تلاش کرتے کرتے ہم کھیل مکمل کئے بغیر ہی تھک جاتے تھے اور آخر تھک ہار کے سو جاتے تھے۔ ایسے میدان میں کھیلنے کا ہمیں یہ فائدہ ضرور تھا کہ چھوٹی موٹی بیماری کا ہم پر کوئی اثر نہ ہوتا تھا۔ بات مختصر مگر جامع کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد محمد محسن نے ہوا میں اڑنے کا خواب دیکھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ پائلٹ افسر بن گیا ٹریننگ اور وہ بھی ذوق شوق سے۔ بھاگم بھاگ، دن رات کا ایک کیا جانا اور پھر واقعی ہوا میں اڑنا۔کہتے ہیں خواب سارے تھوڑے پورے ہوتے ہیں اور یوں مشاق طیارہ اچانک دریائے کابل میں گرتا ہے استاد پائلٹ اللہ کے حضور پیش ہو جاتے ہیں اور زیر تربیت محسن بچ بچا کر جہاز کی چھت پر چڑھ جاتا ہے اور وہاں سے کشتی والا اس کو ریسکیو کردیتا ہے۔ جس کو اللہ رکھے اس کو کون چکھے۔ خواب جب ادھورے رہ جائیں تو ہر شخص اندر سے ٹوٹ جاتا ہے اور اس دنیا میں ایسا اکثر ہوتا رہتا ہے۔ پھر کمانڈو کورس اور اس کے بعد بیماری کا غلبہ اور اس غلبے میں معالجین کا اہم فیصلہ فلائیٹ لیفٹیننٹ محمد محسن کو اس لئے ریٹائر کیا جاتا ہے کہ وہ شیزوفرینیا کا مریض بن چکا ہے اور ایسے مرض میں مبتلا شخص کچھ بھی کر سکتا ہے یہاں تک کہ خود کو بھی مار سکتا ہے اور کسی کو بھی مار سکتا ہے۔ اس کہانی کی ایک نئی فیز۔ چیلنج در چیلنج۔ شادی کا سفر، بچوں کی کفالت، علاج معالجہ، معاشرتی رویے، معاشی مسائل، ڈپریشن کی شدت کے اثرات اور پڑھے لکھے نوجوان افسر کا