مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نئیں مردا

شاہد نسیم چوہدری ٹارگٹ 0300-6668477

مولاجٹ کے پروڈیوسر کا انتقال: ایک عہد کا خاتمہ

پاکستانی فلم انڈسٹری کا ایک روشن باب، محمد سرور بھٹی، 13 جنوری 2025 کو لاہور میں انتقال کر گئے۔ ان کی وفات سے نہ صرف فلمی دنیا بلکہ ان کے مداحوں میں بھی ایک گہرا خلا پیدا ہوا ہے۔ سرور بھٹی وہ نام ہیں جو 1979 کی شہرہ آفاق فلم مولاجٹ کے پروڈیوسر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کی فلمی خدمات نے پاکستانی سینما کو بین الاقوامی سطح پر روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔مولاجٹ: پاکستانی سینما کا شاہکار:سرور بھٹی کی پروڈیوس کردہ فلم مولاجٹ پاکستانی فلمی تاریخ کا وہ شاہکار ہے جس نے فلم انڈسٹری کو ایک نئی شناخت دی۔ گنڈاسا کلچر پر مبنی اس فلم میں سدھیر، سلطان راہی، مصطفیٰ قریشی اور عالیہ جیسے معروف اداکاروں نے کام کیا۔ اس فلم کے مکالمے، خصوصاً “مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نئیں مردا”، آج بھی زبان زد عام ہیں۔مولاجٹ صرف ایک فلم نہیں بلکہ پاکستانی کلچر کی عکاسی اور عوامی جذبات کی نمائندگی تھی۔ اس فلم نے معاشرتی اور ثقافتی مسائل کو ایک منفرد انداز میں پیش کیا، جس کی وجہ سے یہ نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی مقبول ہوئی۔سرور بھٹی کی پروڈیوس کردہ فلموں میں صرف مولاجٹ ہی نہیں بلکہ کئی دیگر کامیاب فلمیں شامل ہیں، جو اپنے وقت کی بلاک بسٹر ثابت ہوئیں۔ ان میں شیر خان، وحشی جٹ اور چن وریام جیسی فلمیں قابل ذکر ہیں۔شیر خان: اس فلم میں سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کی جوڑی نے اپنی شاندار اداکاری سے شائقین کے دل جیت لیے۔وحشی جٹ: یہ فلم بھی مولاجٹ کی طرح ایک یادگار فلم ثابت ہوئی، جس میں گنڈاسا کلچر کی منفرد عکاسی کی گئی۔چن وریام: دیہی پنجاب کی ثقافت اور تعلقات کی پیچیدگیوں پر مبنی یہ فلم بھی عوام میں بے حد مقبول ہوئی۔سرور بھٹی: فلم انڈسٹری کے محسن تھے۔سرور بھٹی کا شمار ان فلمسازوں میں ہوتا ہے جنہوں نے پاکستانی سینما کو بین الاقوامی معیار کے قریب لانے کی بھرپور کوشش کی۔ ان کی فلموں کا موضوع معاشرتی مسائل، دیہی کلچر اور انسانی جذبات پر مبنی ہوتا تھا۔ ان کا وژن پاکستانی سینما کے لیے ایک تحریک ثابت ہوا۔
مولاجٹ کا اثر: فلم انڈسٹری کے لیے ایک انقلاب
مولاجٹ نے پاکستانی سینما کے لیے ایک نئی راہ ہموار کی۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد گنڈاسا کلچر پر مبنی کئی فلمیں بنیں، لیکن سرور بھٹی کا معیار اور ان کی فلموں کی گہرائی دوسری فلموں سے نمایاں رہی۔ مولاجٹ کے کردار، مکالمے اور کہانی نے اسے عوامی فلم بنا دیا۔
سرور بھٹی نہ صرف ایک عظیم فلمساز تھے بلکہ ایک مخلص انسان بھی تھے۔ وہ اپنی فلموں کے ذریعے نہ صرف تفریح فراہم کرتے تھے بلکہ معاشرتی مسائل پر روشنی ڈالنے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کی فلمیں ایک مثبت پیغام دیتی تھیں اور لوگوں کو ان کے حقوق اور مسائل سے آگاہ کرتی تھیں۔سرور بھٹی کی وفات ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ ان کی نماز جنازہ داتا دربار میں ادا کی گئی، جہاں فلمی دنیا کی معروف شخصیات اور عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ان کے انتقال پر فلمی صنعت کے مشہور ناموں نے افسوس کا اظہار کیا اور انہیں خراج تحسین پیش کیا۔سرور بھٹی کی موت سے پاکستانی سینما ایک عظیم رہنما سے محروم ہو گیا ہے۔ ان کی بنائی ہوئی فلمیں نہ صرف ماضی کی یادگار ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک مشعل راہ بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا کرے۔ سرور بھٹی کا نام ہمیشہ پاکستانی سینما کے سنہری صفحات پر جگمگاتا رہے گا۔”مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نئیں مردا” کا فلسفہ شاید سرور بھٹی کی زندگی کی حقیقت بن گیا، کیونکہ ان کے فن کے ذریعے وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔سرور بھٹی کی وفات سے پاکستانی فلمی صنعت ایک مخلص اور محنتی فلمساز سے محروم ہو گئی ہے۔ ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور ان کی بنائی ہوئی فلمیں آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔

Comments (0)
Add Comment