2024امید نو کے سہارے گزرتا جا رہا ہے پاکستانی عوام نے سیاسی قیادت کی نااہلی اور بصیرت سے محروم معاشی ماہرین کی غیر پسندانہ پالیسیوں کی وجہ سے بہت مصائب برداشت کئے۔ ارض پاک خطرات سے گھرا مگر بھرپور وسائل اور عزم عوام سے مالا مال پاکستان عالمی افق پر قائدانہ صلاحیتوں کے ساتھ جلوہ گر ہو سکتا ہے۔ جس کے لئے ضروری ہے کہ ہم مادر وطن کو اس کا فرض دلانے کی کوشش کریں جو ہم پر واجب ہے۔ ایٹمی پاکستان آج بھی اپنے پاﺅں پر کھڑا ہو سکتا ہے۔ شرط یہ قیادت امداد کی زنجیروں سے نجات حاصل کرے۔ حکومت ماضی کی روایات کو برقرار رکھے قرض لینے میں ریکارڈ قائم سے گریز نہیں کیا۔ جس سے عوام اس سال بھی مہنگائی کا خمیازہ بھگت رہے۔ کیونکہ آمدنی میں خاطر خواہ اقدامات نہ ہونے کے باعث اس سال بھی حکومت کا انحصار قرضوں پر ہی ہے۔ مہنگائی کا جن بے قابو ہو کر باہر نکل آیا اور عوام کو اچھی طرز زندگی تو کجا دو وقت کی روٹی پوری کرنا بس سے باہر ہو گیا۔ آج کا پاکستان بڑی مشکلات سے دوچار ہے۔ اس وقت تمام اسٹیک ہولڈرز‘ سیاست دان‘ فوج‘ عدلیہ اور بیورو کریٹس مل کر ایک واضع قومی روڈ میپ مرتب کریں تاکہ ہماری سسکتی اور تنزلی کی شکار معیشت کو مستحکم معیشت کی حیثیت میں بدلا جا سکے۔ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام نہیں آ سکتا۔ جب تک ایک دور اندیش ‘ دیانت دار اور تعلیم ”ٹیکنالوجی میں مہارت رکھنے والی حکومت نہیں ہو گی جو انصاف اور صلاحیت کو یقینی بنائے اس وقت تک پاکستان ترقی نہیں کر سکے گا۔انقلاب ان نظریات کا نام ہے۔ عوام کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ ہوش مندانہ باشعور آگہی سے ایسے لوگوں کو منتخب کریں جو ان معیار کو پورا کرنے کی مکمل صلاحیت پر پورا اترا کریں۔قومیں اچھے لیڈروں کی اچھی سوچ اور اچھی قیادت سے ہی تبدیلی لاتی ہیں۔ اس کو تبدیلی کہتے ہیں۔ پاکستان کی آبادی 60فیصد سے زائد نوجوانوں پر مشتمل ہے جو کہ ہمارا ایک اہم اثاثہ ہیں۔ انہیں اعلیٰ ڈگری حاصل کے ساتھ ساتھ اسکلز پر بھی توجہ چاہیے۔ آج کا دور گلوبل ویلج بن گیا ہے۔ ان کے لئے ہم اس سوچ سے بے نیاز ہیں کہ ہم انہیں کیا بتا رہے ةیں۔ دنیاوی تعلیم کے لئے سب کچھ کر گزرتے ہیں۔ان کی اسلامی و اخلاقی تربیت و تعلیم کی طرف ذرا بھی دھیان نہیں دیتے۔ بچے کیسا ہی لباس پہن لیں سگریٹ پئیں۔ شیشہ و شراب کے رسیہ ہوں۔ بے حیائی و برائی کے کاموں میں دن رات مگن ہوں ہمارے ماتھے پر شکنیں نہیں پڑتیں۔ صرف ان کو ایسی تعلیم دینے سے غرض ہے تاکہ کل کو کسی اعلیٰ منصب پر پہچ کر دولت کے ڈھیر
لگا دیں اور اسٹیس اپ ہو جائے چاہے وطن و نظریہ پاکستان و اسلام کا جنازہ ہی کیوں نہ نکل جائے۔یہ آج کل کے مغرب نواز کنفیوژڈ مسلمان کا شاخسانہ ہے۔ اللہ و رسول کی تعلیمات کو دنیاوی معمولی لالچ کی خاطر رد کر دیا جاتا ہے۔
میڈیا کی آزادی بنیادی ستون ہے ہم ایک اہم ذمہ دارانہ انداز میں عوام اور نوجوان نسل عمدہ راہنمائی ادا کر سکتے ہیں۔ اس طرح آج کا پاکستان جسے قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اپنی قائدانہ کاوش سے آزاد کرایا اسی انداز میں ایک آزاد مملکت کی حیثیت سے معاشی طور پر مضبوط کیا جا سکتا ہے۔معیشت مضبوط ہو تو ہر قسم کی محتاجی سے دور ہو کر بے روزگاری غربت اور مہنگائی اور لوڈشیڈنگ جیسے مسائل کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ آج بنگلہ دیش اور افغانستان معاشی طور پر پاکستان سے مضبوط ہو گیا ہے۔ وہاں عوام اور لیڈر شپ کی قائدانہ اور ۔۔۔۔۔۔اسی طرح اگر ہم شرح خواندگی کو 90فیصد تک بھی لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہم بھارت کی طرح بڑی کلاس کو اوپر لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس سے فی کس آمدنی کی سطح اوپر لانے میں کامیابی ہے۔وہ اس طرح ممکن ہے کہ ہم اپنی ترجیحات میں تعلیم و صحت کی سہولتوں کی عام کرنے پر توجہ دیں۔ ایک سادہ سی حقیقت ہے کہ ہیں تمام شعبوں میں قانون کی حکمرانی اور قانون کا اطلاق ہر حال مقدم سمجھنا اور نافذ کرنا ہو گا۔ پاکستان کے کروڑوں عوام بھوک ‘افلاس‘ سماجی ناانصافیوں مہنگائی اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے طرح طرح کے مسائل کا شکار ہیں۔مجموعی طور پر ہم خود احتسابی کی بجائے دوسروں کے کیڑے نکالنے کو ترجیح دیں۔ ملک و قوم کی ترجیحات کی بجائے ذاتی پسند و ناپسند کو بہتر خیال کریں۔ اسلام و نظریہ پاکستان کے لئے دی گئی قربانیوں کو بھول کر ظاہری و وقتی مفادات کو پہل و میں دبائے رکھیں۔ایماندار ‘ محب وطن شریف اور نظریاتی قیادت کی بجائے لٹیروں چوروں کو ملک کا حاکم بنانے پر تل جائیں تو پھر کیسے اس ملک میں امن ہو گا۔ انصاف آئے گا‘ روٹی‘ کپڑا اور مکان میسر ہو گا۔ حلال و حرام کی تمیز ہو گی۔ نظام درست ہو گا تو درست سمت ترقی کریگا۔ غیروں کی غلامی سے نجات ملے گی۔ اگر واقعی ہم اس وطن کی مٹی کے مفادار ہیں اور اسلام نظریہ پاکستان کے علمبردار ہیں تو پھر ہم سب کو اپنا اپنا خلوت میں بھی احتساب کریں پھر دیکھیں کیسے اس ملک وطن عزیز کے حالات بدلتے اور سنورتے ہیں۔
انسانی زندگی میں وقت کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں خوشی ہو یا غم کا کوئی بھی لمحہ انسانی جذبات کی پرواہ کئے بغیر تیزی سے گزر جاتا ہے۔ گزرتے سال نے کتنے لوگوں کو خوشیاں دیں اور کتنے لوگ سوگوار چھوڑے یہ حساب کتاب اپنی جگہ لیکن حقیقت ہے کہ وقت بڑے بڑے زخموں پر مرہم رکھ دیتا ہے جن رشتوں کے جدا ہونے یا ٹوٹ جانے سے ہم بکھر جاتے ہیں اور خود کو ادھورا محسوس کرتے ہیں وقت کی بدولت ہی اگلے لمحوں میں ہمیں کوئی ایسا رشتہ مل جاتا ہے جو ہمیں نئی زندگی کا احساس دلاتا ہے۔ الوداع ہوتے سال میں ہم نے جانے کتنے لوگوں کو شکایتوں کا موقع دیا۔ ہماری
نادانستہ غلطیوں سے کچھ اپنے دوست احباب ہم سے ناراض بھی ہوئے ہوں