احساس کے اندا
تحریر ؛۔ c
میرا کالم “گدھ ہاوس ” شائع ہوا تو اس پر بےشمار تبصرہ کیا گیا بیشتر لوگوں نے اسے بہت پسند کیا اور مجھے بہت سے قاری حضرات نے اپنی راۓ دی اور کچھ نے تنقید کا نشانہ بھی بنایا ۔ایک دوست نے کہا ہے کہ “آپ نے تو گدھ کو ہیرو بنا دیا ہے ۔”میں نے جواب دیا کہ بھائی میرا مقصد تو گدھ کی افادیت اور ضرورت کا احساس دلانا تھا اسکی تعریف مقصود نہ تھی ۔اسی طرح میرے ایک اور دوست نے مجھے لکھا کہ ” آپ نے گدھ اور شاہین کو ایک خاندان کہا ہے لیکن ان کی عادات میں فرق بھی بتایا ہے آپ اگر گدھ کی عادات کے ساتھ ساتھ شاہین کی خصوصیات بھی لکھتے تو حلال اور حرام کا فرق بہتر سمجھ آسکتا تھا ۔مگر شاہین کا تذکرہ آپ نے ایک سرسری مثال کے طور پر دیا ہے ۔آپ کو شاہین کے بارے میں بھی مزید کچھ لکھنا چاہیے جو فضاوں کا بادشاہ کہلاتا ہے اور پرندوں کی دنیا کا درویش بھی سمجھا جاتا ہے جسے اقبال نے اپنے نوجوانوں کا رول ماڈل بتایا ہے ” ۔مجھےان کی بات اچھی لگی اور اس بات سے ایک پرانی اور مشہور کہانی یاد آگئی جو مختلف لوگ فیس بک پر شیئر بھی کر چکے ہیں ۔بے شک شاہین کی خدادا صلاحیت ہی اسے دوسرے پرندوں سے منفرد اور ممتاز کرتی ہے ۔یہ پانچ میل دور تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور میلوں بلا پر ہلاۓ ہوا میں تیرتا ہوا سب سے اونچی پرواز کرتا ہے ۔قدرت کی عطا کردہ ان گنت صفات سے مالامال پرندوں کا یہ بادشاہ اپنی عادت اور روایت کبھی نہیں بدلتا ۔بہت سے ملکوں میں عقاب کو مقدس اور روحانی پرندہ بھی کہا جاتا ہے ۔یہ خوددار پرندہ آشیانوں کا محتاج نہیں ہوتا اور نہ ہی رزق کے خوف سے اسے ذخیرہ کرتا ہے۔آسمان کی بلندیوں سے دیکھنے والا یہ دلیر پرندہ تازہ اور خود شکار کیا ہوا گوشت کھانا ہی پسند کرتا ہے ۔دوسرے پرندوں اور جانوروں کی طرح بچے کھچے مردہ شکار پر نہیں لپکتا ۔یہ اپنے وزن سے پانچ گنا زیادہ وزن کا شکار پنجوں سے اٹھا لیتا ہے ۔عقاب ہمیشہ اکیلا اڑتا ہے اور دوسرے کسی پرندے کی صحبت یا ساتھ اختیار نہیں کرتا تاکہ اس پر اور اسکے بچوں پردوسروں کی صحبت کا اثر نہ پڑے ٔ ۔ شاہین کو بہادری کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔ہمارۓ اباجی کہتے تھے کہ عقاب یا شاہین کی درویشی دراصل اس کا حرام رزق سے پرہیز اور ذخیرہ نہ کرنا ہوتا ہے جسے توکل بھی کہتے ہیں ۔وہ ضرورت سےزیادہ اور بلامقصد شکار نہیں کرتا ۔رزق حرام یا بھیک مانگنے یا ذخیرہ کرنے سے سے کبھی پیٹ نہیں بھرتا بلکہ بھوک کی شدت اور بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ یہ بھوک نہیں ہوس بن جاتی ہے اور ہوس کی آگ کبھی نہیں بجھتی یہ مزید سلگتی اور بڑھتی رہتی ہے ۔
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ
کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ تند وتیز آندھیوں نے بلندوبالا پہاڑوں تک کو ہلا کر رکھ دیا ایسے میں شاہین کا آشیانہ بھی ان آندھیوں کی نذر ہو گیا ۔گو شاہین کو آشیانے کی اتنی خاص ضرورت نہ تھی کیونکہ وہ تو پہاڑوں ،چٹانوں اور کوہ وبیاباں میں کہیں بھی بسیرا کر لیتا ہے ۔ان طوفانوں نے اسے گھائل کردیا تھا مگر اس کے لیے مسئلہ یہ نہیں تھا کہ وہ زخمی بھی تھا اور اس کے پر بھی ٹوٹ چکے تھے بلکہ پرواز اور شکار میں دشواری اس کے لیے بڑا المیہ تھا ۔ اسے اپنی بھوک سے زیادہ اپنے اس چھوٹے بچے کی فکر کھاجارہی تھی جو ابھی اڑنا بھی نہیں جانتا تھا اور بھوک اور پیاس برداشت بھی نہیں کر سکتا تھا ۔
گزر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ وبیاباں میں
کہ شاہیں کے لیے ذلت ہے کار آشیاں بندی
ایسے میں اس کے پاس ایک کوا آیا اور ہمدردی کرتے ہوۓ کہنے لگا کہ شاہین میرے دوست تیرے پر ٹوٹ چکے ہیں ۔زخمی ہونے کی وجہ سے تم اڑ بھی نہیں سکتے ۔لیکن چلو کوئی بات نہیں میں تمہارا دوست ہوں مدد کرنا میرا فرض ہے ۔گو میں تمہارے پر تو فوری واپس نہیں لا سکتا نہ ہی زخم بھر سکتا ہوں لیکن یہ کر سکتا ہوں کہ تیرے اور تیرے بچے کے لیے کچھ کھانے کو لا دوں ۔شاہین نے ایک نظر اپنے پروں اور پھر کوۓ پر ڈالی اور خاموش ہو گیا ۔کوا سمجھا کہ خاموشی نیم رضا مندی ہوتی ہے آخر شاہین کو بھوک نے میرے آگے جھکا ہی دیا ہے ۔شاہین نے کوے ٔ سے پوچھا کہ تم میرے اور میرے بچے کے لیے خواراک کیسے اور کہاں سے لاو گے؟ تو کوۓ نے مسکرا کر جواب دیا کہ میں تو کسی مردار جانورکا گوشت ہی لاکر دۓ سکتا ہوں کیونکہ مجھ سے اڑتے ہوۓ زندہ پرندے کا شکار تو نہیں ہوسکتا اور نہ ہی مجھ میں یہ شکار کی صلاحیت رکھی گئی ہے ۔شاہین نے کوۓ کی ہمدردی میں چھپا طنز محسوس کر لیا اور دبے لفظوں میں کوۓ سے کہا کہ بھائی تیرا شکریہ ! لیکن میری مجبوری یہ ہے کہ میں اپنے بچے کو مردہ گوشت نہیں کھلا سکتا ۔یہ شاہین بچہ ہے اسے مردہ گوشت کھلانے سے بہتر تو اس کی موت ہی اچھی ہے ۔کوۓ نے اسے ڈرایا کہ شاہین بھائی ایسا نہ ہو کہ یہ بچہ بھوک سے مرجاۓ آخر کیا وجہ ہے کہ مجبوری میں زندہ رہنے کے لیے بھی مردہ گوشت کھانے اور بچے کو کھلانے پر آمادہ نہیں ہو تو شاہین نے ہنس کر کہا اگر میں اپنے بچے کو مردہ گوشت کھلا کر زندہ رکھوں گا تو یہ مردہ رہے گا اس کی جسامت اور شکل صورت تو شاہین جیسی ہی ہو گی لیکن ضمیر میں مردہ گوشت ہر مقام پر بولے گا میں اپنے بچے کو مردہ اور حرام گوشت کھلا کر گدھ یا کوا نہیں بنانا چاہتا بلکہ یہ شاہین کا بچہ اس کی عادت، خصوصیت اور فطرت شاہین جیسی ہی ہونی چاہیں ۔اس کی خودداری ہی اس کی پہچان ہونی چاہیے ۔کوۓ نے پوچھا تو پھر کیا کرو گے اور اس بچے کی بھوک کیسے مٹاو گے ؟ شاہین نے جواب دیا کہ میرے پاس بس ایک آپشن بچا ہے کہ میں اسے زندہ رکھنے کے لیے اپنے جسم کا گوشت کھلا سکتا ہوں لیکن بھیک میں ملا مردار کا رزق اپنے بچے کو کھلا کر گدھ یا کوا نہیں بنا سکتا ۔آخر کار شاہین نے اپنے جسم کا گوشت نوچ نوچ کر اپنے بچے کھلا کر شاہین ہی بنایا موت تو قبول کرلی مگر بھیک اور خیرات کا مردار گوشت قبول نہ کیا ۔اسی لیے کہتے ہیں کہ شاہین بھوکا تو مر سکتا ہے لیکن مردار کبھی نہیں کھاتا اور نہ اپنے بچوں کو کھلاتا ہے ۔ وہ اپنی خود داری پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ حرام خوری ضمیر کی موت ہوتی ہے اور شاہین کی برتری کی وجہ اسکا ضمیر ،خودداری اور کردار ہی تو ہوتا ہے ۔جو اس میں پلٹنے جھپٹنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے اور اسے دوسرے ٔ سب پرندوں میں ممتاز اور برتر رکھتا ہے ۔وہ جانتا ہے کہ بھیک اور مانگے تانگے کے رزق سے اس کی خوداری متاثر ہوتی ہے ۔شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ مسلمان کو ہمیشہ شاہین صفت دیکھنا چاہتے تھے ۔
جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا اک بہانہ
یہ پورب یہ پچھم چکوروں کی دنیا
مرا نیلگوں آسماں بیکرانہ
آج ہمارے معاشرے میں دنیا کی دیکھا دیکھی بھیک ،اور حرام خوری عام ہو چکی ہے ۔آرام و آسائش کی طلب نے ہماری انسانی بنیادی خصوصیات چھین لی ہیں ۔رشوت ،ملاوٹ ،بددیانتی ،ہیر پھیر ،ناپ تول میں کمی ،جھوٹ ،دھوکہ دہی ،سفارش ،اقربا پروری ،منافقت ،حرص و ہوس،ناجائز قبضوں اور دولت کی دوڑ نے ہمیں بےحس کر دیا ہے ۔اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ رزق حرام سے پرورش پانے والے بچے کل کو شاہیں صفت ہوں گے تو یہ ہماری بھول ہے ۔ہمارے معاشرے میں تبدیلی تب ہی ممکن ہے کہ ہم اپنے بچوں اور گھروالوں کو رزق حرام کا مردہ گوشت نہ کھلائیں ۔ یقینا” تب ہی معاشرہ اچھے اور بڑے انسان پیدا کر سکتا ہے ورنہ غلام کو جتنی مہنگی پوشاک پہنا دو اس کا ضمیر مطمین نہیں ہوتا چہرے سے غلامی کے آثار ٹپکتے رہتے ہیں غلاظت کے ڈھیر پر اگر گلاب کے پھول کھلے ہوں تو غلاظت دیکھ کر اسکی خوشبو کوئی بھی باشعور انسان نہیں سونگھ سکتا۔ بنیادی محرومی دنیا کی سب سے بڑی غلامی ہے اس محرومی کو صرف انسان ختم کر سکتے ہیں کوئی خاص قبیلہ یا خاندان نہیں اور یاد رہے کہ انسانیت دنیا میں سب سے بڑا قبیلہ ہے اور یہ ہی سب سے طاقتور قبیلہ ہے۔البتہ ہمیں اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ہماری ترقی کی راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ یہی ہے کہ ہم رزق کے حصول میں حرام و حلام کا فرق کھو بیٹھے ہیں ۔اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے کچھ بھی کر گزرتے ہیں ۔ہم اسے اپنی بقا سمجھتے ہیں جبکہ دراصل یہ موت ہے ۔
اے طاہر لاہوتی ااس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی