علامہ اقبال اور کشمیری جدوجہد

رخسانہ رخشی

کشمیری اور دنیا بھر کے لوگ کشمیریوں کے اصولی موقف پر اتفاق کرتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل ہونا چاہئے۔ یہ جدوجہد قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی کیونکہ کشمیریوں کو کبھی سکون سے رہنے نہ دیا گیا۔ انسانی حقوق کی جس قدر پامالی کشمیر اور فلسطین میں دیکھنے کو ملتی ہے ویسی زیاتی کہیں نہ دیکھی۔ شاعرمشرق ڈاکٹرعلامہ اقبال نے اسلام اور تصوف کے بعض پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے تو اسلام اور تصوف کے وسیع مطالعے کے غور و فکر اور روحانی تجربات نے اقبال کی شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا۔ تصوف کی خو علامہ اقبال نے اپنے والد محترم سے پائی۔ مذہبی فرائض کی پابندی اور عقیدت کی شدت کشمیری مسلم خاندان سے پائی۔ یہ اتفاق ہی ہے کہ جب اکتوبر کے آخری دنوں میں کشمیر کا یوم سیاہ منایا جاتا ہے تو اس سے اگلے دنوں میں اقبال کے دن شروع ہوجاتے ہیں۔ اتفاق یہ بھی ہے کہ کشمیر کی سرزمین کو اولیاء و صوفیا اور دانشوروں کی سرزمین بھی کسی حد تک کہا جاتا ہے پھر یہ تمام اوصاف علامہ میں بھی تواتر سے پائے گئے۔ اقبال نے کشمیر کیلئے کئی ایک نظمیں بھی کہیں ہیں۔ ہندوستان کے ایک سفیر جو ماسکو میں متعین تھے، دُرگا پرسا دھر جو خود بھی کشمیری تھے، انہوں نے اقبال اور کشمیر کے تعلق سے اپنا تاثر بیان کیا کہ شاید ہی زمین کے کسی خطے نے اپنے شاعر کے خواب کی ایسی تعبیر دی ہو جیسی اقبال کی ان نظموں نے جو کشمیر کے حق میں لکھی گئیں۔ دُرگا پرسا دھر مزید کہتے ہیں کہ میں نے ’’پیام مشرق‘‘ اور ’’جاوید نامہ‘‘ پر ایک بار اس مضمون کی خاطر نظر ڈالی تو ’’ساقی نامہ‘‘ میں کشمیریوں پر وہ شعر اور بھی بامعنی نظر آئے جن کا مفہوم تھا کہ
’’کشمیری کو سر جھکائے اور حکم بجا لانے کی عادت ہوگئی ہے۔ کسی نہ کسی سنگ مزار سے بت تراشتا رہتا ہے۔ مالک نے اس کی محنت سے ریشم کی قبا بنوا لی لیکن خود لیر لیر کپڑے پہنے پھرتا ہے‘‘۔
یہ ان زمانوں کی بات ہے جب کشمیر کے راجہ کا معاملہ لیگ آف نیشنز میں پیش کرنا چاہئے تھا کہ ان کا یعنی کشمیریوں کا ملک سستے داموں بیچ دیا گیا۔ علامہ اقبال کے افکار و نظریات کو مدنظر رکھیں تو یہ تصور واضح ہو جاتا ہے کہ جہاں اقبال نے مسلمانان ہند کیلئے تصور پاکستان پیش کیا تھا بالکل اسی طرح اقبال مصور کشمیر بھی ہیں۔ وہی آپ کے نظریات و افکار کو جدید پیرائے میں آج کی نوجوان نسل کیلئے اہم بنایا جائے خاص طور پر کشمیری نوجوان کیلئے۔ کہتے ہیں کہ ابتدائے شعور سے ہی اقبال کے دل میں سماجی حالات کی بدتری بس گئی تھی۔ تصوف کے تحت عقیدوں اور رسموں میں پروان چڑھنے کے باوجود ان کا دھیان گھوم پھر کر سماجی مسائل کے فلسفیانہ، معاشی و اقتصادی پہلوؤں پر جاتا۔ وہ مشاہدے اور مطالعے کے طویل اور مسلسل سفر میں ہی انتہا درجے کے باشعور شاعر ہونا ٹھیرے۔ آپ بنیادی طور پر قوم کے زوال جان کر پھر اس کے اسباب تشخیص اور ہرممکن علاج کی فکر میں رہتے۔ جیسے آج ہمارا دل کشمیری برادری کی ہر تحریک پر لبیک کہتا دکھائی دیتا ہے بالکل اسی طرح علامہ اقبال کو بھی کشمیر کی لگن تھی۔ شاید علامہ اقبال ایک فلسفی ہونے کے ساتھ ساتھ ماہر نجوم بھی تھے کہ جنہیں کشمیر کے مستقبل کی دگرگوں ہوتی حالت دکھائی دے رہی تھی۔ وہ دن ان پر بہت بھاری تھے جب کشمیر کے راجہ نے اس کا سودا کردیا تھا اور تب سے ہی کشمیری قوم غلامی کی زنجیروں میں جکڑی گئی اور سامراجی طاقتیں ان پر مسلط ہی ہوتی گئیں۔ حاکم بھی تو ذہنی غلام ہی رہے۔ اس درد سے بھرپور شعر کی مانند:

درد اپنا مجھ سے کہہ میں بھی سراپا درد ہوں
جس کی تو منزل تھا، میں اس کارواں کی گرد ہوں

سماجی شعور کے اولین مرحلے میں یعنی 1901 سے 1904میں ہی انہیں برصغیر کے مسلمانوں کی پسپائی اور بدحالی نظر آگئی تھی اور ان کا دل غم سے چور تھا۔ آپ یہ ہی چاہتے تھے کہ جلد سے جلد غلامی کے طوق اتارے جائیں۔ آپ نے کشمیریوں کو بھی غلامی مسترد کرنے کی ترغیب دی تھی۔ اپنے آبائی علاقے سے عقیدت ان کی فطرت میں شامل تھی اس لئے کہا کہ:

آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیر
سینۂ افلاک سے اٹھی ہے آہ سوز ناک
مرد حق ہوتا ہے جب مرغوب سلطا و امیر

آپ نے اس زمانے میں بھی کشمیریوں کی مظلومی کی خوب نمائندگی کی:
بریشیم قبا خواجہ از محنت او
نصیب تنش جامۂ تار تار

وہی بات کہ سرمایہ داروں کی ریشمی قبائیں کشمیریوں کی محنت کی وجہ سے ہیں مگر خود ان کی پوشاک پیوند زدہ ہے۔
آج اقبال زندہ ہوتے تو کم از کم ان کے جذبۂ ایمانی کو زبان ملتی، شعور ملتا، جذبات کی عکاسی ہوتی، قلم چلنا اور یہ قلم کی حرکت اقوام متحدہ کے اداروں تک ضرور پہنچتی اور شاید پھر آج کی طرح سیاہ دن منانے کی نوبت ہی نہ آتی۔ انسانی حقوق کی پامالی کی آواز نہ اٹھانا پڑتی۔ یوم سیاہ کی صورت میں بہیمانہ تصاویر نہ دیکھنا پڑتیں کہ علامہ اقبال کی آواز کی بلندی کسی نہ کسی ذہن کو جھنجھوڑ ہی دیتی۔ کوئی درد نہ سننا پڑتا کہ:

تھی کسی درماندہ رہرو کی صدائے دردناک
جس کو آواز رحیل کارواں سمجھا تھا میں

Comments (0)
Add Comment